• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
سی ای او،ایمار پاکستان سہیل بیگ

'70 سال بعد تعمیرات کے شعبے کو صنعت کا درجہ ملا ہے‘

ایمار پاکستان کے سی ای او سہیل بیگ نے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں اپنے گیم چینجر منصوبوں سے متعلق آگاہ کیا۔
شائع July 13, 2021

عظمیٰ خطیب نواز: اس وقت ایمار پاکستان کن منصوبوں پر کام کررہا ہے؟

سہیل بیگ: ایمار پاکستان اس وقت دو منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ ان میں سے ایک ایمار کراچی اور دوسرا کینین ویو اسلام آباد ہے۔ ایمار کراچی ڈی ایچ اے فیز 8 میں سمندر کنارے 75 ایکڑ کی اراضی پر ایک کثیرالمنزلہ عمارت کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے میں 30 سے زائد ٹاورز شامل ہیں جہاں ایک ہی جگہ پر دفاتر اور تفریحی سہولیات میسر ہوں گی۔ اس کا تصور ایک انٹیگریٹڈ نیبرہُڈ کا ہے جہاں 2 کروڑ مربع فٹ پر مبنی رہائشی یونٹ، دفاتر، مال، دکانیں، اور ہوٹل شامل ہوں گے۔ اس منصوبے کی تکمیل میں مزید 10 سال کا عرصہ لگے گا۔ اس وقت یہاں 7 ٹاور مکمل ہوچکے ہیں اور 250 سے زائد خاندان ایمار کراچی میں اپنی رہائش سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ کینین ویو اسلام آباد کے ڈی ایچ اے فیز 5 میں 400 ایکڑ پر محیط افقی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ منصوبے کی تکمیل پر یہاں تقریباً 5 ہزار مختلف نوعیت کے رہائشی یونٹ ہوں گے۔ اس وقت 200 سے زائد خاندان ایمار کینین ویو میں رہائش پذیر ہیں۔

عظمیٰ خطیب نواز: اس وقت کراچی کے لیے ایمار کے مزید کون سے منصوبے موجود ہیں؟

سہیل بیگ: ہم نے کراچی میں دو رہائشی ٹاور لانچ کیے ہیں۔ مارچ 2020ء میں ہم نے پیناروما لانچ کیا تھا اور دی ویوز کے نام سے دوسرا منصوبہ حال ہی میں لانچ کیا ہے۔ دونوں منصوبوں میں اپارٹمنٹ، پینٹ ہاؤس، ٹاؤن ہاؤس اور کمرشل جگہیں شامل ہیں۔ ہمارے تمام پریمیم پینٹ ہاؤس فروخت ہوچکے ہیں اور محدود تعداد میں رہائشی اور کمرشل یونٹ دستیاب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ایمار کراچی کی تعمیر جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے اپنے اسٹریٹجک شراکت داروں کے ساتھ مل کر ہوٹلز، مالز اور دفاتر کی جگہوں جیسے کمرشل اثاثوں کی تعمیر کے حوالے سے بھی کام کر رہے ہیں۔ ہمارے صارفین بہترین چیز کو پسند کرتے ہیں۔ کراچی میں عوام سہولت اور تحفظ کو مد نظر رکھتے ہیں اسی وجہ سے وہ چار دیواری کے اندر قائم کثیرالمنزلہ عمارتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ کینین ویوز اسلام آباد ایک پرسکون زندگی پر مرکوز افقی تعمیرات کا منصوبہ ہے۔ اس طرح ہم نے دونوں مارکیٹوں میں فرق کیا ہے۔

عظمیٰ خطیب نواز: ایمار اپنے صارفین کو کون سی منفرد خصوصیات فراہم کرتا ہے؟

سہیل بیگ: ایمار کراچی سمندر کے ساتھ رہائش کے لیے بین الاقوامی ڈیزائن اور معیار فراہم کرتا ہے۔ ہمارے منصوبوں میں جدید ترین مکینیکل اور الیکٹریکل سسٹم موجود ہوتے ہیں جن میں تازہ ہوا کی گردش، وی آر ایف، سینٹرل ایگزاسٹ، سی سی ٹی وی اور ڈیٹا شامل ہے۔ ایمار کراچی کے بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے ادروں کے ساتھ معاہدے موجود ہیں جن میں 100 فیصد بیک اپ موجود ہے۔ ہمارے ٹاوروں میں سوئمنگ پول، جم، تقریبات کے لیے ہال، یوگا رومز اور کِڈز روم موجود ہیں۔ یہاں موجود ساحل، سمندر کے ساتھ خوشگوار زندگی کا تجربے کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ کلبز، اسکول اور اسپتالوں جیسی سہولیات بھی قریب ہی واقع ہیں۔ ایمار کا عزم ایک ایسا مربوط معاشرہ تشکیل دینے کا ہے جہاں لوگ ایک محفوظ ماحول میں بہترین زندگی کا تجربہ کرسکیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایمار کراچی میں بہترین محل وقوع، تحفظ، سہولت اور عالمی معیار کے ڈیزائن اور آرکیٹیکچر موجود ہے۔

عظمیٰ خطیب نواز: آپ کے ہدفی صارفین کون ہیں؟

سہیل بیگ: ہم پاکستان میں کام کرنے والی چند بین الاقوامی تعمیراتی کمپنیوں میں سے ایک ہیں جو پراپرٹی قوانین اور دستاویزی عمل کو مکمل طور پر ملحوظ رکھتے ہیں۔ ہمارے 70 فیصد صارفین کراچی سے ہی ہیں اور باقی 30 فیصد سمندر پار پاکستانی ہیں جو کہ شفاف اور باضابطہ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔

عظمیٰ خطیب نواز: آپ کو یہاں کام کرتے ہوئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

سہیل بیگ: ہمیں دستاویزی عمل میں مشکلات کا سامنا رہا۔ بدقسمتی سے آدھی پراپرٹی مارکیٹ نقد رقم میں کام کرتی ہے۔ ہم اس طرح کام نہیں کرسکتے تھے اور یہ ہمارے لیے سب سے بڑی مشکل رہی۔

عظمیٰ خطیب نواز: دستاویزی عمل کے علاوہ آپ کے یہاں خریدای کا عمل دیگر اداروں سے کس طرح مختلف ہے؟

سہیل بیگ: ہمارا فروخت کا سارا نظام معیاری چیز کی بروقت فراہمی پر مرتکز ہے۔ ہم ڈی ایچ اے کراچی میں کام کرنے والے واحد ڈیویلپر ہیں کہ جو ادائیگیوں کا 4 سالہ پلان فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایمار کراچی میں پراپرٹی خریدنے کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ ادائیگیوں کا 4 سالہ پلان تعمیری عرصے کے برابر ہی ہے یعنی جس وقت تک صارف ادائیگی پوری کرے گا اس وقت تک وہ پراپرٹی کا قبضہ بھی حاصل کرسکے گا۔ ہم مختلف بینکوں کے ساتھ آف پلان ہوم لون فنانسنگ پر بھی کام کررہے ہیں جو ہمارے کاروبار کرنے کے طریقے کو تبدیل کردے گا اور پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کے لیے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ کئی ممالک میں تو یہ بہت عام ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے تاہم اسی وجہ سے عوام پراپرٹی خرید سکیں گے۔

عظمیٰ خطیب نواز: آف پلان ہوم لون کس طرح کام کرتا ہے اور اس کی دستیابی کب تک متوقع ہے؟

سہیل بیگ: ہم نئی آف پلان ایمار پراپرٹی کی خریداری کے لیے مختلف بینکوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم کچھ عرصے میں اس کا علان کردیں گے اور یہ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں ایک گیم چینچر ثابت ہوگا۔ اس ضمن میں ہم اسٹیٹ بینک کے شکر گزار ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان رضا باقر رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں اصلاحات لانے میں بہت متحرک رہے۔ ڈسکاؤنٹ شرح میں کمی، ایمینسٹی اسکیم، رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو قرضوں کی فراہمی، ہوم لون اسکیموں کے فروغ اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسے اقدامات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات بہت حوصلہ افزا ہے کہ 70 سالوں میں پہلی مرتبہ اس شعبے کو صنعت کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ یہ درست سمت میں ایک قدم ہے۔

عظمیٰ خطیب نواز: آپ کے خیال حکومت کی جانب سے مزید کون سی مراعات دی جانی چاہئیں؟

سہیل بیگ: غیردستاویزی کرداروں کو تو کئی مراعات دی گئی ہیں لیکن باضابطہ طور پر کام کرنے والوں کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا۔ اگر حکومت باضابطہ اور دستاویزی شعبے کے لیے خصوصی ٹیکس چھوٹ اور مراعات کا اعلان کرے تو اس سے دستاویزی عمل میں بھی تیزی آئے گی اور حکومت کو بھی مزید ریوینو حاصل ہوگا۔ مارگیج (رہن) کے فروغ کے لیے ہوم لون انٹرسٹ ایکسپینس ٹیکس کی کٹوتی کے ساتھ پہلی مرتبہ گھر خریدنے والوں اور نئے گھر خریدنے والوں کے لیے ٹیکس مراعات متعارف کرنا ضروری ہے۔ رئیل اسٹیٹ کا مستقبل اسی سے ہے۔