• KHI: Fajr 5:12am Sunrise 6:28am
  • LHR: Fajr 4:42am Sunrise 6:02am
  • ISB: Fajr 4:46am Sunrise 6:09am
  • KHI: Fajr 5:12am Sunrise 6:28am
  • LHR: Fajr 4:42am Sunrise 6:02am
  • ISB: Fajr 4:46am Sunrise 6:09am

پاک بھارت تعلقات میں استحکام کے لیے دونوں ممالک کو کیا کرنا ہوگا؟

شائع March 16, 2023

لکھاری سابق سیکرٹری خارجہ اور ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔
لکھاری سابق سیکرٹری خارجہ اور ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔

ستمبر 2016ء میں بھارت نے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا اعلان کیا تھا۔ درحقیقت اسٹرائیک کی تو نہیں گئی لیکن اُس موقع پر بیشتر تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بھارت دو طرفہ تعلقات میں ’نئے معمول‘ کی جانچ کررہا ہے جہاں وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا وہ پاکستان کو ایٹمی ردِعمل دینے پر اکسائے بغیر اسٹرائیک کرسکتا ہے؟

چند سال بعد فروری 2019ء میں بھارت نے بالاکوٹ کے خالی میدانوں میں سرجیکل اسٹرائیک کی اور کہا کہ وہ پاکستان میں عسکریت پسند گروہوں کے تربیتی کیمپوں کو نشانہ بنارہا تھا۔ اگرچہ وہاں کوئی کیمپ نہیں تھا اور صرف چند درختوں کو ہی نقصان پہنچا لیکن ایک ایٹمی قوت کی جانب سے دوسری ایٹمی قوت پر اس طرح کا حملہ جنوبی ایشیا کی منفرد صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ دیگر تمام ایٹمی ممالک براہِ راست عسکری تصادم سے گریز کرتے ہیں اور تنازعات کو ختم کرنے کے لیے سفارت کاری پر انحصار کرتے ہیں۔

1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی بمباری سے ہونے والی ہولناک تباہی کا مشاہدہ کرنے کے بعد عالمی برادری نے اعادہ کیا کہ جوہری ہتھیاروں کو دوبارہ کبھی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

1968ء کے جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) کے معاہدے کے تحت واضح کیا گیا تھا کہ اس وقت موجود 5 ایٹمی ممالک امریکا، سوویت یونین، برطانیہ، فرانس اور چین مستقبل میں اپنے جوہری ہتھیار تلف کردیں گے اور انہیں اسی شرط پر جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ جوہری ہتھیار نہ رکھنے والی ریاستیں جنہوں نے این پی ٹی میں شمولیت اختیار کی انہوں نےجوہری ہتھیار نہ بنانے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس کے بدلے ان ریاستوں سے وعدہ کیا گیا کہ انہیں جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے زیادہ مواقع ملیں گے۔

لیکن یہ سمجھوتا زیادہ عرصے نہیں چل سکا اور ایٹمی قوت رکھنے والے ان 5 ممالک میں سے کسی نے بھی ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے امریکا اور سویت یونین کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کا آغاز ہوا۔

یہ خدشہ اور خوف ابھر رہا تھا کہ ان دونوں ممالک کے درمیان سرد جنگ کہیں حقیقی جنگ کی صورت نہ اختیار کرلے لیکن ایسا ہوا نہیں کیونکہ انہیں احساس تھا کہ اس طرح کے کسی اقدام کے نتیجے میں دونوں ہی ممالک کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم نے تمام برِاعظموں پر ان دونوں ممالک کی عداوت کو دیکھا لیکن ایسا زیادہ تر جاسوسی، پروپگینڈا، ہتھیاروں کی پیداوار اور پراکسی جنگوں کی صورت میں ہی نظر آیا۔

1962ء میں کیوبا کا میزائل بحران وہ واحد موقع تھا جب یہ دونوں ممالک تصادم کے بہت قریب آگئے تھے۔ تب تنازعات کو حل کرنے میں سفارت کاری نے اہم کردار ادا کیا۔ 1967ء سے 1979ء میں گفتگو کے ذریعے معاملات طے کرنے کے تصور نے تناؤ کم کرنے میں کافی مدد کی اور سفارتی مذاکرات کے نتیجے میں اسٹریٹجک ہتھیاروں کو محدود کرنے کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔

افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے دوران بھی امریکا نے اپنی فوج کے ذریعے سوویت یونین کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ اس کے بجائے مجاہدین کے ذریعے پراکسی وار کے راستے کا انتخاب کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور امریکا کی قیادت میں ایک عالمگیر دنیا کے ابھرنے کے باعث دنیا کے مختلف حصوں میں تنازعات پھوٹ پڑے۔

امریکا نے عالمی برادری کی جانب سے سخت ردِعمل اور مذمت کے باوجود عراق پر حملہ کیا، ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے خدشات کے باعث اس پر پابندیاں عائد کیں جبکہ افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ اس دور میں بھی ایٹمی ممالک کے درمیان تصادم کی نوبت نہیں آئی لیکن پاکستان اور بھارت کا معاملہ اُس وقت بھی سب سے مختلف تھا۔

آج دنیا امریکا اور چین کے درمیان سخت مقابلہ دیکھ رہی ہے اور چین کے عروج کو روکنے کے لیے امریکا نے بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کو اتحادی بنا لیا ہے۔

تاہم یہ دونوں ممالک براہِ راست جنگ کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ اسی طرح روس-یوکرین جنگ میں بھی نیٹو اور امریکا نے اپنی افواج بھیجنے سے گریز کیا ہے اور یوکرین کو جنگ لڑنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے، تاہم مغربی دنیا یوکرین کی عسکری اور معاشی مدد ضرور کررہی ہے۔

تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بقیہ ایٹمی ممالک کے مقابلے میں جنوبی ایشیا میں معاملات اتنے مختلف کیوں ہیں؟ 1988ء میں اس خطے میں جوہری ہتھیار آنے کے بعد بھارت اور پاکستان دونوں ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوچکے تھے اور وقفے وقفے سے ان کے درمیان تصادم ہورہا تھا جن میں 1999ء کی کارگل جنگ اور 2002ء میں 10 ماہ طویل فوجی سرگرمیاں شامل ہیں۔ پسِ پردہ ہونے والی سفارت کاری اور تیسرے فریق کے ثالث کا کردار ادا کرنے سے تناؤ کو کم کرنے اور جنگ روکنے میں مدد ملی۔

جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ ان دونوں ممالک کے درمیان موجود عدم اعتماد کی فضا ہے۔ باہمی اعتماد قائم کرنے کی چند کوششیں بھی کی گئیں لیکن وہ ہمسایہ ممالک کے دوستانہ تعلقات کے قیام کے لیے ناکافی تھیں۔

پائیدار مذاکرات کا نہ ہونا، حل طلب مسئلہ کشمیر اور دہشتگردی کے خطرے کے باعث جنوبی ایشیا عدم استحکام کا شکار ہے۔

اس وقت، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ہندوستان میں ہندو راشٹرا بنانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں، اور خطے میں مسلسل پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی یہ کوششیں امن کے امکانات کو متاثر کررہی ہیں اور اس سے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک عدم استحکام کا خطرہ مزید بڑھ رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کو دیگر ایٹمی ممالک سے کچھ سبق سیکھنا چاہیے اور اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ایٹمی ماحول میں ’جیتنے‘ کی کوشش کرنے کے فوائد سے زیادہ اس کے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ اگر سفارتکاری کو معاملات طے کرنے کا بلاتعطل موقع فراہم کیا جائے تو دنیا کے دیگر خطوں کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی استحکام آسکتا ہے جس سے ہمارا خطہ خوشحال ہوسکتا ہے۔ یہ وہ ’نیا معمول‘ ہونا چاہیے جس کو اپنانے کی بھارت اور پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے۔


یہ مضمون 11 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

اعزاز احمد چوہدری

لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز اسلام آباد کے ڈی جی اور کتاب ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 9 اکتوبر 2024
کارٹون : 8 اکتوبر 2024