• KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:41pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 4:09pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 4:13pm
  • KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:41pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 4:09pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 4:13pm

ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں کیا گیا فیصلہ تبدیل، امریکا ایک بار پھر یونیسکو میں شامل

شائع June 30, 2023
یونیسکو نے 2011 میں فلسطین کو رکنیت دی تھی—فائل/فوٹو:اے پی
یونیسکو نے 2011 میں فلسطین کو رکنیت دی تھی—فائل/فوٹو:اے پی

ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں دستبرداری کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے امریکا ایک بار پھر یونیسکو میں شامل ہو گیا۔

غیرملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی ’ کی خبر کے مطابق امریکی فیصلے سے متعلق خبر اقوام متحدہ کی ثقافتی ایجنسی نے بتائی۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں اعلان کیا تھا کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کو یونیسکو سے باہر نکال رہے ہیں، انہوں نےیونیسکو پر یہودی ریاست کے خلاف تعصب کا الزام لگاتے ہوئے اس فیصلے کا اعلان تھا جو 2018 میں نافذ ہوا۔

قوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم یونیسکو پیرس میں قائم ہے، یہ تنظیم عالمی ثقافتی ورثہ کے مقامات کی فہرست مرتب کرتی ہے، آزادی صحافت کا دفاع کرتی ہے، پائیدار ترقی کو فروغ دیتی ہے اور تعلیمی پروگرام چلاتی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک غیر معمولی اجلاس میں امریکا کی واپسی کے لیے بھاری اکثریت نے ووٹ دیا، تقریباً 132 ارکان نے حق میں، 10 نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ 15 نے غیر جانبدار رہے۔

خلاف ووٹ دینے والوں میں ایران، شام، چین، شمالی کوریا اور روس شامل تھے جن کے مندوبین نے طریقہ کار پر بیانات کے ذریعے ووٹنگ میں تاخیر کی کوشش کی اور مختلف ترامیم تجویز کیں۔

یونیسکو کا بانی رکن امریکا 2011 تک اس کے بجٹ میں بڑا حصہ دینے والا ملک تھا جب کہ تنظیم نے فلسطین کو بطور رکن ریاست تسلیم کیا۔

اس کے بعد امریکی قانون کے تحت اس کی رکنیت ختم ہوگئی اور چھ سال بعد اس نے انخلا کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔

2017 سے یونیسکو کی سربراہی کرنے والی سابق فرانسیسی ثقافتی وزیر آڈری ازولے نے امریکا کی تنظیم میں واپسی کو اپنی مدت کی ترجیح قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج یونیسکو اور کثیرالجہتی کے لیے عظیم دن ہے۔

2011 میں اپنی رکنیت کی معطلی تک امریکا نے یونیسکو کے بجٹ کا تقریباً 22 فیصد، یا 75 ملین ڈالر ادا کیے۔

لیکن اس وقت موجودہ صدر جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے زیر کنٹرول امریکی کانگریس نے دسمبر میں امریکی فنڈنگ بحال کرنے کی راہ ہموار کی اور بجٹ میں اس کے لیے 150 ملین ڈالر مختص کیے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے مارچ میں کہا تھا کہ یونیسکو میں امریکا کی غیر موجودگی چین کو مصنوعی ذہانت سے متعلق رولز لکھنے کی اجازت دے رہی ہے۔

انٹونی بلنکن نے بجٹ پیش کرتے وقت سینیٹ کمیٹی کو بتایا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یونیسکو میں واپس آنا چاہیے، یونیسکو کے لیے تحفہ کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے کہ جو چیزیں یونیسکو میں ہو رہی ہیں، وہ حقیقت میں اہمیت رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ مصنوعی ذہانت کے رولز، اصولوں اور معیارات پر کام کر رہے ہیں، ہم وہاں اپنی موجودگی چاہتے ہیں۔

امریکا 1984 میں بھی یونیسکو سے دستبردار ہو گیا تھا جب کہ ریگن کا دور صدارت تھا اور یہ اکتوبر 2003 میں تقریباً 20 سال کی غیر موجودگی کے بعد تنظیم میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔

امریکا پہلے ہی دو بار پیچھے ہٹ چکا ہے۔ شمالی کوریا کے ایک سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ہمیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ہم سے اور کتنی بار ان کا استقبال کیا جائے گا۔

امریکا کو رکنیت کی بحالی کے بعد یونیسکو کو 619 ملین ڈالر ادا کرنے ہیں ہے، جو کہ 2011 اور 2018 کی مدت کے لیے واجب الادا ہیں جو کہ تنظیم کے سالانہ مجموعی بجٹ 534 ملین ڈالر سے زیادہ ہیں۔

تنظیم نے کہا کہ امریکا آنے والے برسوں میں یونیسکو کو اپنے بقایہ جات کی ادائیگی کرے گا۔

کارٹون

کارٹون : 28 ستمبر 2024
کارٹون : 27 ستمبر 2024