• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:17pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:38pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:39pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:17pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:38pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:39pm

بھارت: سپریم کورٹ نے کھانا بیچنے والوں کی شناخت سے متعلق فرقہ وارانہ ہدایات پر حکم امتناع جاری کردیا

شائع July 23, 2024
فائل فوٹو: ڈان اخبار
فائل فوٹو: ڈان اخبار

بھارتی سپریم کورٹ نے اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں حکام کی طرف سے کنور یاترا کے راستے پر بنے ہوئے کھانا بیچنے والوں کو ان کے مالکان کے نام اداروں کے باہر ظاہر کرنے کی ہدایات پر حکم امتناع جاری کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسکرول نیوز پورٹل نے بتایا کہ جسٹس ہریشی کیش رائے اور ایس وی این بھٹی کی بینچ نے ان ہدایات کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے ایک بیچ پر نوٹس جاری کرتے ہوئے عبوری حکم جاری کیا، تاہم عدالت نے کہا کہ کھانا بیچنے والوں کو اس بارے میں معلومات ظاہر کرنی چاہیے کہ وہ کس قسم کا کھانا پیش کر رہے ہیں۔

17 جولائی کو سینئر سپرنٹندنٹ پولیس (ایس ایس پی) مظفر نگر نے ہندو یاتریوں کے راستے پر واقع کھانے پینے کے اسٹالز کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے مالکان کے نام ظاہر کریں، اس ہدایت کا اطلاق 19 جولائی کو ریاست بھر میں کر دیا گیا تھا، اطلاعات کے مطابق اس ہدایت کو اب اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے تمام اضلاع میں سختی سے نافذ کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ہدایت کے خلاف سپریم کورٹ میں تین درخواستیں دائر کی گئیں، پہلی، این جی او-ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی طرف سے، دوسری ترنمول کانگریس کی رکن ماہوا موئترا کی جانب سے اور تیسری معروف سیاسی مبصر اور دہلی یونیورسٹی کے ماہر تعلیم اپوروانند جھا اور کالم نگار آکر پٹیل کی طرف سے۔

درخواست گزاروں نے استدعا کی ہے کہ ان ہدایات سے مذہبی تقسیم کا خطرہ ہے اور بھارتی آئین کے مختلف آرٹیکلز کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، مزید یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ہدایات کھانے پینے کی چیزوں کے مالکان اور کارکنوں کی رازداری کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہیں، انہیں خطرے میں ڈالتی ہیں اور انہیں نشانہ بناتی ہیں۔

کارروائی کے دوران سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی نے ہدایت کے پیچھے ’ریشنل نیکسس‘ پر سوال اٹھایا، انہوں نے نشاندہی کی کہ صورت حال تشویشناک ہے کیونکہ پولیس حکام نے مذہبی تفریق پیدا کرنے کا خود ٹھیکا اٹھا لیا ہے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی نے دعویٰ کیا کہ یہ ہدایات عملی طور پر مالکان کی شناخت کریں گی اور انہیں معاشی بائیکاٹ کا نشانہ بنائیں گی۔

اس کے جواب میں بینچ نے پوچھا کہ کیا غیر قانونی ہدایات رسمی احکامات ہیں یا پریس بیان کا حصہ؟ اس پر ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی نے وضاحت کی کہ پہلے پریس میں بیانات دیے گئے تھے لیکن بعد میں حکام نے انہیں نافذ کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ یوپی کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیا ناتھ نے بھی ان کی تائید کی۔

وکیل نے کہا کہ ایسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، کوئی قانون پولیس کمشنرز کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں دیتا، یہ ہدایت ہر ہاتھ گاڑی (ہاکروں)، چائے کے اسٹالوں کے لیے ہے، ملازمین اور مالکان کے نام دینے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔

ترنمول کانگریس کی رکن ماہوا موئترا اور اے پی سی آر نے ان ہدایات کو چیلنج کرتے ہوئے درخواستیں دائر کی تھیں، جبکہ پروفیسر جھا اور کارکن پٹیل نے بھی مشترکہ طور پر اسی طرح کی درخواست دائر کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ہدایات مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو آسان بنائیں گی اور یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔

یہ ہدایات یوپی کے مظفر نگر اور اتراکھنڈ کے ہریدوار میں یاترا کے راستے کے ساتھ ڈھابوں، کھانے کے اسٹالوں اور ہوٹلوں کے مالکان پر لاگو ہوتی ہیں۔

2023 میں پجاری یشویر مہاراج نے مطالبہ کیا تھا کہ مسلم اداروں کے مالکان اپنے کاروبار پر اپنے نام ظاہر کریں۔

کنور یاترا کے دوران، عقیدت مند، جنہیں کنواریاں کہا جاتا ہے، ہریدوار کے قریب گنگا سے پانی جمع کرنے کے لیے سیکڑوں کلومیٹر پیدل چلتے ہیں اور اسے مندروں میں چڑھانے کے لیے اپنے آبائی ریاستوں میں لے جاتے ہیں۔

عقیدت مند بنیادی طور پر اتر پردیش، ہریانہ، راجستھان، دہلی اور مدھیہ پردیش سے آتے ہیں، اس سال کنور یاترا پیر کو شروع ہوئی اور یہ 2 اگست کو اختتام پذیر ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 30 اکتوبر 2024
کارٹون : 29 اکتوبر 2024