• KHI: Fajr 5:12am Sunrise 6:28am
  • LHR: Fajr 4:42am Sunrise 6:02am
  • ISB: Fajr 4:46am Sunrise 6:09am
  • KHI: Fajr 5:12am Sunrise 6:28am
  • LHR: Fajr 4:42am Sunrise 6:02am
  • ISB: Fajr 4:46am Sunrise 6:09am

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور سے منظور

شائع July 31, 2024
حکومتی رکن بلال اظہر کیانی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کا بل پیش کیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز
حکومتی رکن بلال اظہر کیانی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کا بل پیش کیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز

گزشتہ روز حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل ایوان زیریں کی قائمہ کمیٹی سے منظور کرلیا گیا۔

الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کا بل جسے الیکشن (دوسرا ترمیمی) ایکٹ 2024 کا نام دیا گیا، اس میں پہلی ترمیم سیکشن 66 اور دوسری ترمیم سیکشن 104 میں متعارف کروائی گئی ہے۔

پہلی ترمیم کے مطابق کسی سیاسی جماعت کی جانب سے وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا جب کہ دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ جس پارٹی نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہ دی ہو، اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس ہوا جس میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آزاد ارکان کی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اور مخصوص نشستوں کا معاملہ واضع ہے، پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے کہا کہ یہ نجی بل ہے، اس بل پر وزیر قانون وکالت نہ کریں، جس نے بل پیش کیا، اسے تشریح کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کو بلڈوز نہ کیا جائے، حکومت اس بل کو اختیار کرنا چاہتی ہے تو بتا دے، لگتا ہے نجی بل وزیر قانون کی منشا سے آیا ہے، حکومتی رکن بشیر ورک علی نے کہا کہ علی محمد خان تاخیر سے آئے۔

علی محمد خان نے کہا کہ تلاوت کے موقع پر میں موجود تھا، اگر اس سے قبل کوئی ذیلی اجلاس ہوا تو اس میں میں موجود نہیں تھا۔

پارلیمان قانون ساز ادارہ، عدالتیں صرف تشریح کرتی ہیں، وزیر قانون

وزیر قانون نے کہا کہ یہ بل بہت ساری کنفیوژنز کو دور کرتا ہے، پارلیمان قانون ساز ادارہ ہے عدالتیں صرف تشریح کرتی ہیں، جہاں پارلیمان کو لگے، اس کے اختیارات میں مداخلت ہو رہی ہے یا آئین کو دوبارہ لکھا جارہا ہے، وہاں پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار ہے، آئین قانون بنانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون سازی عدالت کا نہیں پارلیمان کا اختیار ہے، اس بل میں کوئی نئی چیز نہیں، جو رولز ایکٹ آئین میں موجود ہے بل اس کو واضع کرتا ہے، کسی جماعت میں شمولیت کی مدت تین دن ہے، اس کے بعد کسی دوسری جماعت میں شمولیت نہیں ہو سکتی۔

وزیر قانون نے کہا کہ الیکشن کے بعد ایک پراسیس ہوا، شمولیت کا وقت ختم ہو گیا، کس قانون کے تحت کسی رکن کو دوبارہ کسی دوسری جماعت میں شمولیت کا کہا جا سکتا ہے، کسی رکن اسمبلی کی شمولیت ایک بار ہی کسی جماعت میں ہو سکتی ہے، مخصوص نشستیں بھی اسی جماعت کو ملیں گی جس نے لسٹ فراہم کی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن ایکٹ 2017میں ترمیم کے نجی بل کی حمایت کی اور کہا کہ رولز میں سب واضع ہے، اس کو ایکٹ کا حصہ بنا رہے ہیں۔

’بل پارلیمنٹ بمقابلہ سپریم کورٹ ہو گا‘

طلال اظہر کیانی نے کہا کہ کوئی رکن الیکشن جیت کر ڈیکلیریشن جمع نہیں کراتا تو وہ آزاد رہے گا، اس ترمیم کے ذریعے ابہام کو دور کیا جا رہا ہے، اگر مقررہ مدت میں کسی جماعت نے مخصوص نشستوں کی لسٹیں جمع نہیں کرائیں تو وہ جماعت اس کی مستحق نہیں ہو سکتی، آزاد الیکشن لڑ کرکوئی جماعت جوائن کر لی تو دوسری جماعت میں شمولیت نہیں ہو سکتی۔

علی محمد خان نے کہا کہ کیا اس کا اطلاق ماضی پر ہو گا یا مستقبل پر؟ وزیر قانون نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 232 میں بھی ترمیم کی گئی، پارلیمان نے اس پر قانون سازی کی اور اس کا اطلاق ماضی سے ہوا، جس کے تحت تاحیات نا اہلی کا قانون ختم کیا گیا، کریمنل ایکشن جہاں ہوں گے وہاں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، یہ ترامیم آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔

علی محمد خان نے کہا کہ ہمارے خلاف بھی سپریم کورٹ کے بڑے فیصلے آئے، یہ بل پارلیمنٹ بامقابلہ سپریم کورٹ ہو گا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تحریک انصاف موجود تھی،الیکشن کمیشن نے کس قانون کے تحت تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات منظور نہیں کیے۔

وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ میں درخواست گزار سنی اتحاد کونسل تھی تحریک انصاف نہیں، سپریم کورٹ میں کنول شوزب کی فرمائشی پٹیشن تھی، مقدمہ یہ تھا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں، اگر سنی اتحاد کونسل نے ایک نشست بھی جیتی ہوتی تو اسے مخصوص نشستیں مل سکتی تھیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ الیکشن کمشن میں آزاد امیدواروں نے بھی بیان حلفی جمع کرایا کہ وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا چاہتے ہیں، وزیر قانون نے علی محمد خان کو جواب دیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کا قانون پی ٹی آئی کی حکومت کا ہی بنایا ہوا ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کیوں سپریم کورٹ کا فیصلہ صحیح نہیں سمجھا ؟ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کا فیصلہ صحیح نہ سمجھنے پر شرمندگی ہے؟ وزیر قانون نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کا یہ فورم سوال جواب کا نہیں ہے، علی محمد خان نے وزیر قانون کو جواب دیا کہ یہی تو فورم ہے باہر تو لڑائی، جھگڑے ہیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہتا کہ میٹھا میٹھا کھالیں اور کڑوا کڑوا تھوک دیں، علی محمد خان نے وزیر قانون کو جواب دیا کہ کیا قانون یہ بھی کہتا ہے کہ ایک دن سیاسی جماعت پر آرٹیکل 6 کی بات کریں اور اگلے روز مذاکرات کی دعوت دیں۔

صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہا کہ کیا یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کا تھا یا کسی اور کا کہ تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہ دیا جائے، اس وقت جو صورتحال ہے اس کا ذمہ دار کون ہے، انہوں نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل کی مخالفت کی۔

علی محمد خان، سیکریٹری الیکشن کمیشن میں نوک جھونک

خرم شہزاد ورک نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل پاکستانیوں اور اداروں کے حق میں نہیں، اس بل کو ایوان میں لانا ہی نہیں چاہیے تھا، مخصوص نشستوں کی تقسیم پر بحث ہوتی تو بہتر تھا لیکن دوسری جماعتوں کو نہیں دینی چاہیے تھیں۔

شاہدہ اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس وقت سینڈوچ بنا ہوا ہے، اس طرح کی قانون سازی سے پارلیمان کمزور ہوگا اور میرا ضمیر ملامت کرتا رہے گا، اس بل کی منظوری کے ذریعے کسی ایک پارٹی کا فائدہ نہ دیکھا جائے، حکومت جب چاہتی ہے، جلد بازی میں قانون سازی کرتی ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ کمیٹی ممبران اس بل کی آڑ میں حکومت کی نیت پر شک کر رہے ہیں، علی محمد خان نے بلال اظہر کیانی سے سوال کیا کہ کیا آپ کو یہ خیال سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آیا یا پہلے سے سوچ رہے تھے۔

قاٸمہ کمیٹی میں علی محمد خان اور سیکریٹری الیکشن کمیشن میں نوک جھونک ہوئی، علی محمد خان نے سیکریٹری الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہماری کوئی رائے نہیں ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کے حکام اتنے ہی نازک مزاج ہیں تو انہیں قاٸمہ کمیٹی میں نہ بلایا جائے، علی محمد خان نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو جواب دیا کہ آپ یہاں سوالوں کے جوابات کی تیاری کرکے آیا کریں۔

’ہمارے لوگوں کو اٹھاکر دباؤ ڈالا گیا کہ پارٹی حلف نامہ جمع نہ کرائیں‘

علی محمد خان نے سیکریٹری الیکشن کمیشن سے سوال کہا کہ اگر الیکشن کمشن کے اعتراضات درست ہیں تو کیسے 39 ٹھیک اور 41 غلط ہیں؟ وزیر قانون نے کہا کہ میں سیکریٹری الیکشن کمیشن کے بیان سے کوئی ہیڈ لائن نہیں چاہتا۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کو اٹھایا گیا اور دباؤ ڈالا گیا کہ پارٹی حلف نامہ جمع نہ کرائیں، وزیر قانون نے کہا کہ آپ یہ پنڈورا باکس نہ کھولیں، یہ سب ہمارے ساتھ بھی ہوا۔

علی محمد خان نے وزیر قانون کو جواب دیا کہ آپ کے ساتھ بھی غلط ہوا اور ہمارے ساتھ بھی، الیکشن کمیشن کو اپنا کام کرنا چاہیے، کس قانون کے تحت بیلٹ پیپر سے بلے کا نشان ہٹایا گیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہمیں کیسے تسلیم کر لیا۔

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قائمہ کمیٹی سے منظور کرلیا گیا، بل کی حمایت میں 8 اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے، شاہدہ اختر نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

کارٹون

کارٹون : 9 اکتوبر 2024
کارٹون : 8 اکتوبر 2024