• KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:35pm Maghrib 5:12pm
  • ISB: Asr 3:37pm Maghrib 5:14pm
  • KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:35pm Maghrib 5:12pm
  • ISB: Asr 3:37pm Maghrib 5:14pm

پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اہمیت کا حامل کیوں ہے؟

شائع October 15, 2024

جہاں ایک جانب پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کی میزبانی کے لیے تیار ہے جس میں رکن ممالک کے سربراہانِ مملکت شرکت کریں گے وہیں دوسری جانب پاکستان اور وسیع جنوبی ایشیائی خطے، دونوں میں اس اجلاس کی انتہائی جغرافیائی سیاسی اہمیت بھی ہے۔

ایس سی او ایک کثیرالجہتی تنظیم ہے جو اپنے رکن ممالک کے درمیان سلامتی، اقتصادی اور سیاسی محاذوں پر تعاون کو فروغ دینے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس پلیٹ فارم پر وہ تجارت اور انسداد دہشت گردی سے لے کر انفرااسٹرکچر کی ترقی تک کے مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے باہمی تعاون کرتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ اجلاس ایک منفرد سفارتی موقع ہے بالخصوص ایک ایسے عالمی منظرنامے میں کہ جب دنیا بھر کے ممالک اپنے اتحادی اور اسٹریٹجک حکمت عملی تبدیل کررہے ہیں۔

عالمی قوتوں کا اپنے اتحادیوں کا جائزہ لینے اور ایشیا کے سیاسی اور معاشی مرکز کے طور پر ابھرنے کے ساتھ ایس سی او میں پاکستان کا کردار اسٹریٹجک اثرورسوخ کے سنگم پر ہے۔ چین کا بڑھتا عالمی اثرورسوخ، روس کا ایشیا کی جانب جھکاؤ اور وسطی ایشیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت، پاکستان کو موقع فراہم کرتی ہے کہ ایس سی او کے ذریعے عالمی سطح پر خود کو ثابت کرے۔

پاکستان کی علاقائی خصوصیت ہمیشہ سے اس کا ایک جغرافیائی سیاسی اثاثہ رہا ہے لیکن اندرونی چیلنجز کی وجہ سے وہ اپنی علاقائی خصوصیت کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا پایا ہے۔ اب ایس سی او جیسے کثیرالجہتی پلیٹ فارم میں متحرک کردار کرکے پاکستان اقتصادی فوائد اور سفارتی سرمایہ دونوں حاصل کرسکتا ہے۔

پاکستان کو اس وقت سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے جیسے بڑھتی ہوئی افراطِ زر، کم ہوتے ہوئے غیرملکی ذخائر اور سُست شرحِ نمو کی وجہ سے اسے نئی معاشی شراکت داریوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ جب ایس سی او کے معاشی پہلو کارگر ہوتے ہیں۔ رکن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرکے پاکستان علاقائی مارکیٹس، انفرااسٹرکچر کی سرمایہ کاری اور بڑھتی ہوئی تجارتی ترقی، بالخصوص چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

تاہم پاکستان کے اقتصادی مفادات صرف چین تک محدود نہیں۔ پاکستان وسط ایشیائی ممالک اور روس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دے سکتا ہے اور اقتصادی ترقی اور تنوع کو فروغ دے سکتا ہے۔

یہ نئی معاشی شراکت داریاں پاکستان کو موجودہ بحران کی صورت حال سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس طرح اقتصادی تعاون پاکستان کے وسیع تر جغرافیائی سیاسی اہداف سے منسلک ہے کیونکہ مضبوط اقتصادی تعلقات خطے میں ملک کی اسٹریٹجک اہمیت کو تقویت دیں گے۔

اگرچہ اقتصادی تعاون کلیدی ہے لیکن شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کے لیے سلامتی کے مسائل کی اہمیت بھی کم نہیں۔ پاکستان کو اندرونی سیکیورٹی مسائل کا سامنا ہے بالخصوص سرحدی علاقوں میں جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سلسلہ برقرار ہے۔

ایس سی او کا علاقائی انسدادِ دہشت گردی پر کام کرنے والا فورم، پاکستان کو سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے علاقائی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے ایک قابل قدر موقع فراہم کرتا ہے۔ مزید یہ کہ کراچی میں چینی شہریوں پر ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان اور چین کے درمیان تناؤ کی کیفیت کو کم کرنے میں بھی ایس سی او مددگار ثابت ہوگا۔

چونکہ طالبان کے ٹیک اوور کے بعد سے افغانستان علاقائی عدم استحکام کا باعث بنا ہوا ہے، ایس سی او اجلاس کے ذریعے پاکستان دیگر رکن ممالک کے ساتھ اس سے وابستہ سلامتی کے مسائل پر تعاون کرسکتا ہے۔ پاکستان جو سرحد پار دہشت گردی اور مہاجرین کو پناہ دینے کا خمیارہ بھگت رہا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ علاقائی سلامتی کے مذاکرات میں اپنا متحرک کردار ادا کرے۔

ایس سی او ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پاکستان، چین سمیت اپنے ہمسایہ ممالک، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ علاقائی استحکام کو فروغ دینے کے لیے کام کرسکتا ہے جبکہ یہ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

مختصر یہ کہ ایس سی او میں سلامتی مسائل پر باہمی مسائل اور اقتصادی تعاون ایک دوسرے سے منسلک ہیں کیونکہ پائیدار ترقی کے لیے خطے میں سلامتی انتہائی اہم ہے۔

اس اجلاس کے بہت سے اہم پہلوؤں میں سے ایک پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ہوں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باوجود وہ ایس سی او کے اراکین ہیں اس لیے یہ کثیرالجہتی فورم مذاکرات کرنے کا ایک نادر موقع ہے پھر چاہے وہ بالواسطہ ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان کی جانب سے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کو مدعو کرنے نے اشارہ دیا کہ اسلام آباد وسیع علاقائی فریم ورک کے تحت دہلی کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر بنانے کے لیے رضامند ہے۔

یہ اجلاس کم از کم کشیدگی کم کرنے بالخصوص اقتصادی معاملات بہتر بنانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرسکتا ہے پھر چاہے اس حوالے سے کوئی پیش رفت علامتی ہی کیوں نہ ہو۔ ایس سی او کا پلیٹ فارم دونوں ممالک کو علاقائی تجارت سے فائدہ اٹھانے کے موقع کے ساتھ ساتھ عملی تعاون کے ذریعے کشیدگی کم کرنے کے لیے ایک راستہ فراہم کرسکتا ہے۔

اس طرح شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کس طرح بھارت کو ہینڈل کرتا ہے، وہ نہ صرف دوطرفہ تناؤ کے بارے میں نہیں ہوگا بلکہ اسے وسیع جنوبی ایشیائی اور وسطی ایشیائی خطے میں خود کو ایک ذمہ دار ملک کے طور پر بھی دکھانا ہوگا۔

ایس سی او کی صورت میں پاکستان کو ایسے وقت میں ایک نادر سفارتی موقع میسر آیا ہے کہ جب اسے اقتصادی اور سلامتی کے حوالے سے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسلام آباد کی حکمت عملی واضح ہونی چاہیے۔ اسے اقتصادی اور سلامتی کے مسائل پر علاقائی تعاون میں اضافے، علاقائی استحکام کی ضرورت کو اجاگر کرنے اور پاکستان کو جنوبی ایشیا میں ایک ذمہ دار اسٹیک ہولڈر کے طور پر ظاہر کرنے کے ایجنڈے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

پاکستان کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری میں اپنےاسٹریٹجک کردار پر بھی زور دینا چاہیے اور وسطی ایشیا کو عالمی مارکیٹس سے منسلک کرنے کے لیے خود کو ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ ایسا کرکے یہ نہ صرف چین بلکہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مضبوط بنا سکتا ہے جوکہ زیادہ سے زیادہ راوبط اور اقتصادی شرکت داریاں قائم کرنے کے لیے مضطرب ہیں۔

مزید یہ کہ کشیدہ صورت حال کے باوجود بھارت کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات کی خواہش کا اظہار کرکے پاکستان اپنے حوالے سے یہ تاثر دے سکتا ہے کہ وہ خطے میں پُرامن بقائے باہم کے اصول پر کارفرما ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم جیسے کثیرالجہتی فورمز کے ذریعے فوری طور پر ممالک کے درمیان کشیدگی ختم نہیں ہوجاتی لیکن یہ مستقبل میں پائیدار مذاکرات کے لیے راہ ہموار ضرور کرسکتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماریہ جاوید خان

لکھاری پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں ریسرچ اسسٹنٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 1 نومبر 2024
کارٹون : 31 اکتوبر 2024