• KHI: Fajr 5:46am Sunrise 7:07am
  • LHR: Fajr 5:26am Sunrise 6:53am
  • ISB: Fajr 5:34am Sunrise 7:03am
  • KHI: Fajr 5:46am Sunrise 7:07am
  • LHR: Fajr 5:26am Sunrise 6:53am
  • ISB: Fajr 5:34am Sunrise 7:03am

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا اگلا مرحلہ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو باقاعدہ چارج شیٹ کر دیا گیا

شائع December 10, 2024
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے پاک فوج کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو باضابطہ طور پر چارج شیٹ کر دیا گیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے، فیض حمید پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو سیاسی سرگرمیوں اور آفیشل سکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزیوں میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل (ر) فیض حمید کو ریاست کی سلامتی اور مفاد کو نقصان پہنچانے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا مرتکب بھی قرار دیا گیا ہے۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور افراد کو نقصان پہنچانے کا مرتکب بھی قرار دیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ملک میں انتشار اور بے امنی سے متعلق پُرتشدد واقعات میں فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق تفتیش بھی جاری ہے، ان پرتشدد اور بے امنی کے متعدد واقعات میں 9 مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ان پرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما اور ملی بھگت بھی شامل تفتیش ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے واضح کیا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران فیض حمید کو قانون کے مطابق تمام قانونی حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو رواں سال 12 اگست کو سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کی کورٹ آف انکوائری شروع کیے جانے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

فیض حمید کو حراست میں لیے جانے کے ایک دن بعد عدالت میں پیشی کے موقع پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ فیض حمید کا سارا ڈراما مجھے فوجی عدالت لے جانے کے لیے کیا جا رہا ہے، فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’

آئی ایس پی آر نے فیض حمید کو حراست میں لیے جانے سے متعلق بتایا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کی گئی ہے۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی کئی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں، جس پر انہیں تحویل میں لے کر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے رواں سال 7 مئی کی پریس کانفرنس میں فوج کے خود احتسابی کے نظام کی تفصیلات بیان کی تھی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ فوج میں خود احتسابی کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے، جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے، اتنی ہی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، اور ہمیں اپنے احتساب کے نظام پر فخر ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 8 نومبر 2023 کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی جانب سے جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔

15 نومبر 2023 کو کیس کے تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہو گئے تو ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ’ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم‘ کے مالک معز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی تھی۔

ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور ان کے حکم پر ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔

درخواست کے مطابق 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معز خان سے ان کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا جوکہ فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔

درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی چینل ’آپ ٹی وی نیٹ ورک‘ کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔

درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔

دلائل کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کیا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے اور درخواست گزار کو وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔

عدالت نے یہ بھی نشان دہی کی تھی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل زاہدہ جاوید اسلم نامی خاتون کی جانب سے دائر کی گئی شکایت پر سماعت کے بعد معز احمد خان کو کلیئر قرار دیا تھا۔

زاہدہ اسلم نے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا تھا کہ معز احمد خان ماہانہ تنخواہ کے عوض ان کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتے تھے، تاہم مبینہ طور پر دھوکا دہی سے انہوں نے ان کی جائیدادیں اپنے نام منتقل کرلیں اور جب انہوں نے زمین واپس لینے کی کوشش کی تو معز احمد خان نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔

جسٹس (ر) ثاقب نثار کو جمع کرائی گئی ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق زاہدہ جاوید اسلم کی زمین اصل دستاویزات کی بجائے فوٹو کاپی کی بنیاد پر معز خان کے نام منتقل کی گئی۔

ایف آئی اے کی تحقیقات کے نتائج میں بتایا گیا کہ شکایت کنندہ زاہدہ جاوید اسلم اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکیں لیکن ان کا یہ دعویٰ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں معز احمد خان نے ڈرایا دھمکایا کیونکہ معز احمد خان نے زاہدہ جاوید اسلم کے اربوں روپے کے حصے کی مد میں انہیں کچھ بھی ادا نہیں کیا۔

ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زیربحث جائیداد سے متعلق ڈیل نہ تو عام حالات میں عمل پذیر ہوئی اور نہ ہی رجسٹرار آفس اسلام آباد کی جانب سے دستاویزات کی فوٹو کاپیوں کی بنیاد پر ملکیت کی منتقلی کا عمل شفاف طریقے سے سرانجام دیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 11 دسمبر 2024
کارٹون : 10 دسمبر 2024