نگر، پور، آباد یا کوٹ: پاکستان کے مختلف شہروں کے ناموں سے جڑی منفرد تاریخ
شہر کے نام صرف نقشوں پر نشانی لگانے کے کام نہیں آتے بلکہ شہر تو جیتے جاگتے بیانیے ہوتے ہیں جن میں تاریخ، ثقافت اور اس خطے کی ارتقا پانے والی شناخت کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ اپنی تہذیبوں، خاندانوں اور متنوع ثقافتی اثرات کی وجہ سے پاکستان میں ایسے بےشمار شہر ہیں جن کے ناموں میں ماضی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ نام شہر کی جغرافیائی، تاریخی یا ثقافتی اہمیت کے حوالہ جات ہیں۔ قدیم سلطنتوں کی باقیات سے لے کر جدید ترقی کے نشانات تک، پاکستان کا ہر شہر ایک منفرد کہانی سناتا ہے۔
اپنی کتاب ’نگر نگر پنجاب‘ میں معروف مورخ اور ایوارڈ یافتہ محقق اسد سلیم شیخ نے پنجاب کے شہروں اور قصبوں کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔ وہ قدیم اور جدید دور دونوں کی کہانیوں کا جائزہ لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان مقامات پر کیسے مختلف ادوار میں کس طرح کے لوگ بستے آئے ہیں۔ اسد سلیم شیخ ان شہروں کی ترقی کا سراغ لگاتے ہیں جو اہم ادوار جیسے دہلی سلطنت، مغلیہ سلطنت، سکھ راج، برطانوی دور اور پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد کے دور میں بنائے گئے۔
پاکستان کے بہت سے شہروں کے ناموں میں سابقے یا لاحقے کے طور پر ’نگر‘، آباد’، ’پور‘ اور منڈی’ جیسے الفاظ جڑے ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ محض لسانی القابات نہیں بلکہ یہ ان مقامات کی ورثے اور ارتقا کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ اپنے منفرد ناموں کے ساتھ یہ اس خطے میں رہنے والوں اور وہاں رونما ہونے والے واقعات کو ظاہر کرتے ہیں۔
نگر
لاحقہ ’نگر‘ کا مطلب شہر یا قصبہ ہوتا ہے جبکہ پاکستان بالخصوص پنجاب میں زیادہ تر شہروں کے نام میں نگر شامل ہوتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے نگر شہری علاقوں کی نشاندہی کے لیے پورے جنوبی ایشیا میں استعمال کیا جاتا تھا اور اہم ادوار جیسے مغل اور برٹش راج میں یہ نام زیادہ استعمال کیا جانے لگا جہاں جب بھی کوئی نیا شہری قصبہ آباد ہوتا یا پرانے کو وسعت دی جاتی تو اس کے نام میں نگر شامل کیا جاتا۔
مثال کے طور پر بہاول نگر کا اصل نام روجھنوالی تھا جوکہ چند جھونپڑیوں پر مشتمل ایک چھوٹی آبادی تھی۔ 1904ء میں جب بہاول پور ریاست کے حکمران نواب بہاول خان عباسی نے روجھنوالی کا دورہ کیا تو مقامی آبادی نے ان کے اعزاز میں نام تبدیل ان سے منسوب کرنے کی اجازت طلب کی۔
اسی طرح پنجاب کے ضلع قصور میں واقع پھول نگر پہلے بھائی پھیرو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس شہر کا نام اس علاقے کے سابق وزیر رانا پھول محمد خان سے منسوب ہے جنہوں نے اس شہر کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
پور
ایک اور لاحقہ ’پور‘ ہے جوکہ سنسکرت اور پراکرت زبان سے ماخوذ ہے، اس کا مطلب بھی قصبہ یا شہر ہے۔ تاریخی اعتبار سے قرونِ وسطیٰ کے جنوبی ایشیا میں اس لاحقے کا خوب استعمال کیا جاتا تھا بالخصوص ایسے خطوں میں جو ہندوؤں کے زیرِ اثر تھے اور بعدازاں وہاں مسلم ثقافت کے رنگ نظر آئے۔ سنسکرت لفظ پورہ (مطلب بستی، شہر یا قلعے میں بسا علاقہ) سے ماخوذ یہ لاحقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس علاقے کی پرانی شہری روایات کی عکاسی کرتا ہے۔
مثال کے طور پر بہاول پور کا پرانا نام بہمن آباد تھا۔ 1729ء میں نواب عامر بہاول خان کے اقتدار کو عروج حاصل ہوا تو انہوں نے بہمن آباد کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنا دیا اور اس کا نام اپنے آپ کو اعزاز دینے کے لیے خود سے منسوب کیا۔ اسی طرح 1783ء میں میر سہراب خان تالپور نے بالائی سندھ پر اپنی حکومت قائم کی اور برہان کو اپنا دارالحکومت منتخب کیا۔ تین سال بعد 1786ء میں اس نے اس کا نام خیرپور رکھ دیا۔
ایک اور مثال ہری پور ہے جسے 1822ء میں سردار ہری سنگھ نلوا نے قائم کیا تھا جوکہ ایک قابل ذکر سکھ جنرل تھے۔ اس شہر کا نام ان کے اعزاز میں رکھا گیا تھا جو علاقے کی تاریخ کو تشکیل دینے والے بااثر رہنماؤں کے نام پر مقامات منسوب کرنے کی روایت کی عکاسی کرتا ہے۔
منڈی
پنجاب میں بہت سے شہروں کے نام میں ’منڈی‘ بھی شامل ہوتا ہے جس کے معنی اردو، پنجابی یا ہندی جیسی مقامی زبانوں میں تجارتی مرکز یا مارکیٹ کے لیے جاتے ہیں۔ یہ بستیاں یا قصبے پہلے کمرشل مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جو زرعی مصنوعات یا مویشیوں کے بیوپار کے اہم مقامات ہوتے تھے۔ وقت کے ساتھ یہ مراکز وسعت اختیار کرکے بڑی آبادی اور شہری علاقوں میں تبدیل ہوگئے مگر ان کے ناموں کے ساتھ منڈی کا لفظ اسی طرح منسلک رہا۔
اس کی نمایاں مثال منڈی بہا الدین ہے جو دو عناصر کا امتزاج ہے۔ منڈی لفظ مارکیٹ کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ بہا الدین، پنڈی بہا الدین نامی قریبی گاؤں سے ماخوذ ہے جوکہ اب شہر کا حصہ ہے۔ منڈی کا سابقہ علاقے کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جہاں اناج کی بڑی منڈی ہوا کرتی تھی جبکہ بہا الدین، علاقے کے وسیع تر ثقافتی اور جغرافیائی منظرنامے سے تعلق پر زور دیتا ہے۔
گڑھ
اسی طرح لاحقہ ’گڑھ‘ کا مطلب قلعہ یا قلعہ بند جگہ کے ہیں جو عموماً ایسے علاقوں کے ناموں سے منسلک ہیں جو تاریخی اعتبار سے فوجی چھاؤنی، قلعے یا یہ ایسے علاقے ہوتے تھے جن کے گرد قلعے نما دیواریں ہوتی ہیں۔ اس طرز کی بستیاں اس لیے بنائی جاتی تھیں تاکہ مقامی آبادی کا دفاع ممکن ہوسکے اور اہم تجارتی راستے بھی ممکنہ خطرات سے محفوظ ہوسکیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’گڑھ‘ ناموں والی بستیوں نے شہروں کی صورت اختیار کی مگر ان کے ناموں میں قلعے کا عنصر شامل رہ گیا۔
ایک اور قابلِ ذکر مثال گڑھ مہاراجا ہے جو ضلع جھنگ میں واقع ہے۔ یہ ’صوفی کا شہر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں محترم صوفی سلطان باہو کا مزار ہے۔ اسی طرح مظفرگڑھ ہے جو نواب مظفر خان سے منسوب ہے اور یہ شہر 1794ء میں قائم کیا گیا۔ اس نام کا مطلب ’مظفر کا قلعہ‘ ہے جو اس کی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔
وال، والہ یا والی
شہروں اور بستیوں کے ناموں میں سے زیادہ ’وال‘، ’والا‘ اور ’والی‘ عام ہیں جو فارسی اور عربی زبان سے متاثر الفاظ ہیں۔ یہ لاحقہ عام طور پر تعلق، ملکیت یا وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ والا کا لفظ فارسی اور عربی لفظ ’والی‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’اس کے پاس ہے‘ یا ’اس سے وابستہ ہے‘ کے طور پر لیے جاتا ہے۔ اسی اثنا میں ان لاحقوں کو اس علاقوں سے وابستہ یا وہاں رہنے والوں سے جوڑا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر میاں والی بھی صوفی بزرگ میاں علی سے منسوب ہے جن کی میراث کا اس علاقے سے گہرا تعلق ہے۔ اس علاقے کی تاریخ واقعات سے بھرپور ہے جو وادی سندھ کی تہذیب سے منسلک ہے جبکہ اس نے جنوبی ایشیا کی تاریخ میں کئی ممتاز شخصیات کی حکمرانی دیکھی ہے جن میں سکندر اعظم، قطب شاہ، مغل شہنشاہ بابر، نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی شامل ہیں۔ تاریخی اور روحانی اہمیت کا امتزاج شہروں کے ناموں میں ’والی‘ لاحقے کی اہمیت کو واضح کرے گا۔
اسی طرح گوجراں والا کا نام بھی گجر قبیلے سے منسوب ہے جو شمالی پنجاب کے رہائشی ہیں۔ اس کا پنجابی میں ترجمہ ’گوجروں کا گھر‘ ہے۔ ایک مقامی کہانی بتاتی ہے کہ گوجراں والا کا نام چوہدری گجر نامی گجر قبیلے کے شخص پر رکھا گیا جو رہٹ چلا کر علاقے کو پانی فراہم کرتا تھا۔
ایک اور شہر جڑاں والا کے معاملے میں یہ نام بوہڑ یا برگد کے درخت سے نکلا جو جڑاں والا بوہڑ کے نام سے مشہور ہے۔ جڑاں والا کا نام دو الفاظ کا مخفف ہے۔ جڑاں مطلب جڑیں جبکہ والا کا مطلب مقام کے ہیں۔ یہ کسی جگہ کی شناخت کو اس کی متعین کردہ خصوصیات سے جوڑنے میں لاحقے کی اہمیت پر مزید زور دیتا ہے۔
تاہم بورے والا نام کے بارے میں کچھ واضح نہیں جبکہ اس حوالے سے متعدد خیالات پائے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ خیال ہے کہ اس علاقے کا نام بورا نامی شخص پر رکھا گیا جوکہ شاید سکھ تھا۔ گاؤں کو ’پرانا بورا‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ایک اور خیال یہ پایا جاتا ہے کہ دیہاتیوں نے ایک کنواں بنایا جس کا نام ’چاہ بورے والا‘ رکھا گیا۔ یہ کنواں پاکپتن اسلام لنک کینال کا حصہ بن گیا جس کے نتیجے میں نئے شہر کا نام بورے والا رکھا گیا۔
آباد
بہت سے شہروں کے لاحقوں میں ’’آباد‘ بھی ہوتا ہے جوکہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب قابلِ رہائش، آبادی والا یا ترقی یافتہ علاقہ ہے۔ یہ لاحقہ ایسی آبادی یا برادریوں کی نشاندہی کرتا ہے جو ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔ مثال کے طور پر فیصل آباد کا نام سعودی عرب کے شاہ فیصل سے منسوب ہے۔ یہ نام نہ صرف بادشاہت سے تعلق کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ یہ شہر کی حالیہ دہائیوں میں ترقی اور خوشحالی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام آباد جوکہ پاکستان کا منصوبہ بندی سے بنایا گیا دارالحکومت ہے، اس کا نام جدیدیت اور خوشحالی کی علامت ہے جو قوم کی ترقی کی امیدوں کی بازگشت کرتا ہے۔
آباد لاحقے والا ایک اور اہم شہر حیدرآباد ہے جس کی بنیاد 1768ء میں غلام شاہ کلہوڑا نے نیرون کوٹ کے قدیم قصبے پر رکھی تھی۔ یہ شہر 1843ء تک سندھ کا سب سے بڑا شہر تھا اور جب میانی کی جنگ کے بعد اسے برٹش راج نے فتح کیا تو دارالحکومت حیدرآباد کے بجائے کراچی بن گیا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لقب حیدر سے منسوب حیدرآباد کے معنی ’شیر کا شہر‘ ہے۔
اسی طرح ایک اور شہر صادق آباد ہے جس کا نام بہاول پور ریاست کے حمکران نواب، صادق محمد خان پنجم کے نام پر رکھا گیا۔ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں واقع اس تحصیل کا افتتاح 1948ء میں ہوا۔
اس کے علاوہ ایبٹ آباد جو 1853ء میں بنا، اس کا نام برطانوی راج کے ایڈمنسٹریٹر اور بنگال آرمی کے انگریز ملٹری افسر میجر جیمز ایبٹ کے نام پر رکھا گیا۔ انہیں خطے کا پہلا برطانوی ڈپٹی کمشنر سمجھا جاتا ہے۔
سندھ کا شہر جیکب آباد بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے برطانوی افسر بریگیڈیئر جان جیکب نے 1847ء میں قائم کیا۔ جان جیکب شہر بنانے اور کیولری رجمنٹ 36ویں جیکب ہارس کی بنیاد رکھنے کے لیے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنے کریئر کا بیشتر حصہ نوآبادیاتی برصغیر میں گزارا۔ شہر کا نام خطے میں ان کی میراث کی نمائندگی کرتا ہے۔
ایک اور مثال آزاد جموں و کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد ہے جسے بومبا قبیلے کے سربراہ سلطان مظفر خان نے 1646ء میں قائم کیا تھا۔ مظفر خان نے اسی سال لال قلعہ بھی تعمیر کروایا تاکہ اس علاقے کو مغلیہ سلطنت کی دراندازی سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
17ویں صدر میں وزیرخان نے وزیرآباد کی بنیاد رکھی۔ وزیر خان نے مغل بادشاہ شاہجہان کے دور میں گورنر اور بعد میں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں، وہ بھی تاریخ کا اہم کردار ہیں۔ صدیوں میں یہ خطہ مختلف حکمرانوں کے ماتحت تھا جن میں 18ویں صدی کے وسط میں چرت سنگھ، 1809ء میں رنجیت سنگھ اور 1855ء میں راجوری کے جرال راجپوت شامل تھے۔ ان سب نے جو نیا قصبہ تعمیر کیا تھا اس میں ایک وسیع، سیدھا بازار تھا جس میں اطراف کی گلیوں کو درست زاویوں پر ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ ایسا ڈیزائن تھا جس کا آج بھی شہر معترف ہے۔
کوٹ
کچھ شہروں کے ناموں میں سابقے یا لاحقے کے طور پر ’کوٹ‘ آتا ہے جس کا مطلب قلعہ یا بستی ہے۔ یہ بھی فارسی زبان کے الفاظ کوٹ یا قوٹ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ایسی بستی ہے جس کے تحفظ کے لیے قلعے نما دیواریں بنائی گئی ہوں۔ یہ بستیاں زیادہ تر دریا کنارے، تجارتی راستوں یا سرحدوں پر آباد ہوتی تھیں جو عسکری، تجارت یا انتظامی طور پر انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔ کوٹ کا استعمال فارسی، سنسکرت اور ہند آریائی تہذیبوں کے ثقافتی اثرات کو بھی ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر مغلیہ سلطنت اور دہلی سلطنت جیسے ادوار کی نمائندگی کرتا ہے۔
مثال کے طور پر عمر کوٹ مقامی سندھی سومرا حکمران عمر سومرا سے منسوب ہے۔ یہ شہر عمر ماروی کی وجہ سے مشہور ہے جوکہ محبت کی ایک المناک فوک داستان ہے جس کا ذکر ہمیں شاہ جو رسالو میں بھی ملتا ہے۔
اسی طرح کوٹ ادو کا نام میرانی قبیلے کے رہنما ادو خان میرانی سے منسوب ہے۔ میرانی قبیلے کے سربراہ ادو خان نے اس علاقے کی بنیاد 1500ء میں رکھی۔ یہ علاقہ تاریخی اور قدیم اہمیت کا حامل ہے جبکہ یہ اپنی خوبصورتی اور پُرسکون ماحول کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس کے علاقہ شہدادکوٹ بھی اپنے بانی شہداد خان خواہر سے منسوب ہے۔ ابتدائی طور پر لاڑکانہ ضلع کا حصہ، شہداد کوٹ ایک نئے ضلع، قمبر شہدادکوٹ کا مرکز بن گیا جسے حکومت نے 2005ء میں بنایا تھا۔ ضلع کا اصل نام قمبر تھا لیکن شہر کے مکینوں کے اعتراضات کے بعد شہداد کوٹ کا نام شامل کردیا گیا۔
سیال کوٹ جو پاکستان کے اہم ترین صنعتی شہروں میں سے ایک ہے، اس کی بھی بھرپور تاریخ ہے۔ اس کی بنیاد راجا سل نے رکھی تھی اور بعد میں اس کی تعمیرنو راجا سالیواہیان نے کی تھی۔ انہوں نے شہر میں ایک قلعہ بھی بنایا تھا۔ نتیجتاً اس شہر کا نام سیال کوٹ رکھا گیا جس کا ترجمہ ’سیال کا قلعہ‘ ہے جوکہ شہر کی تاریخی اور فوجی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
یہ ہمارے لیے بالخصوص ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے مختلف مقامات کی تاریخ سے واقف ہوں۔ ماضی سے جڑ کر ہی ہم اپنے حال کو بہتر انداز میں سراہ سکتے ہیں اور روشن مستقبل کی تعمیر کے لیے کوششیں کرسکتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔