لائف اسٹائل

مالا بیگم کی برسی

بے شمار فلمی گیتوں کو اپنی مسحور کن آواز سے امر کر دینے والی پاکستانی گلوکار کی 24ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔

غِم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے جیسے متعدد لازوال گیتوں کو اپنی آواز سے امر کرنے والی گلوکار مالا بیگم کو دنیا سے گزرے آج 24 برس بیت گئے۔

آج بھی اپنی آواز کے ساتھ زندہ نسیم نازلی المعروف مالابیگم نو نومبر1939 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئیں۔

سن 1950ء کی دہائی میں مالا اپنی بڑی بہن شمیم نازلی کے ساتھ موسیقی کے جہاں میں اپنے نام کی شمع روشن کرنے لاہور آئیں۔

بڑی بہن شمیم نازلی نے ملک کی واحد خاتون موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل کیا تو چھوٹی بہن مالا بیگم نے اپنی آواز کے سحر سے زمانے کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

مالا بیگم کو موسیقار بابا غلام احمد چشتی نے 1961ء میں پنجابی فلم 'آبرو' میں متعارف کروایا۔

جبکہ انھوں نے 1962ء میں پہلی اردو فلم 'سورج مکھی' میں اپنے فن کا جادو جگایا تاہم ان کو اصل شہرت فلم 'عشق پر زور نہیں' کے گیت 'دل دیتا ہے رو رو دہائی' سے ملی، جس نے سننے والوں کو چونکا دیا۔

مالا کے عروج کا دور 1964ء سے 1971ء تک رہا جس میں انھوں نے بہت بڑی تعداد میں اعلیٰ پائے کے گیت گائے۔

بن کے میرا پروانہ آئے گا اکبر خانہ، پہ خیر راغلے، مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا، اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، بھولی ہوئی داستاں گزرا ہوا خیال ہوں، یہ سماں پیارا پیارا سا یہ ہوائیں، چن میرے مکھناں اور مجھے آئی نہ جگ سے لاج کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے، جیسے گانوں کو کون بھول سکتا ہے۔

مالا بیگم نے چھ سو فلموں میں سینکڑوں مدھر گیت گائے، اٹھارہ سالہ کریئر میں انہوں نے مہدی حسن، سلیم رضا، احمد رشدی، مسعود رانا، بشیر احمد، منیر حسین اور عنایت حسین بھٹی کے ساتھ درجنوں سپر ہٹ گیت گائے۔

یہی وجہ ہے کہ مالا بیگم نے اپنے وقت کے نامور موسیقاروں کی دھنوں کو اپنی آواز کے قالب میں ڈھالا۔

پاکستان فلم انڈسٹری کے زرخیز دور میں مالابیگم کو نور جہاں کے بعد دوسری بہترین آواز ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے لیکن وہ قابلِ رشک عروج کے بعد زوال کی تلخیوں کو برداشت نہ کر سکیں۔

محض 50 برس کی عمر میں اکلوتی بیٹی گل مالا اور لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کرچھ مارچ 1990ء کو منوں مٹی تلے جا سوئیں۔

مگر مالا کے گیت ان کی اعلیٰ فنی صلاحیتوں کا ثبوت ہیں جو آج بھی چاہنے والوں کی سماعت میں رس گھول رہے ہیں۔