نائنٹیز کا پاکستان -- 4
یہ اس بلاگ کا چوتھا حصّہ ہے۔ پہلے، دوسرے، اور تیسرے حصے کے لیے کلک کریں۔
نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں پرانے اسباق دہرائے گئے۔ آصف زرداری کو مسلسل جیل کاٹنی پڑی، نجکاری (Privatization) کی لہر کے تلے بہت سی بے ضابطگیاں بھی بہہ گئیں اور قریبی رفقاء کو خوب نوازا گیا۔
صوبوں کے بیچ پانی (Water Apportionment Act 1991) اور مال (نیشنل فائنانس کمیشن) کے معاہدوں میں ایسے وعدے کیے گئے جن کو پورا کرنا ناممکن تھا۔ اٹھارہ ماہ کی قلیل مدت میں پانچ ارب ڈالر ضائع کیے گئے۔ سکریپ پر لگنے والا ٹیکس کم کر دیا گیا۔
باہمی تعاون پر مبنی کمپنیوں (Cooperative Finance Corporations) کے زوال کے باعث لاکھوں لوگ متاثر ہوئے اور نواز حکومت کی ساکھ میں کمی آئی۔
اسی دور میں آغا حسن عابدی کے قائم کردہ بینک BCCI کی بے ضابطگی کی داستان سامنے آئی اور اسے زبردستی بند کر دیا گیا۔ اس بینک کو امریکی سی آئی اے نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور افغان جنگ ختم ہوتے ہی بینک کے خلاف شواہد اور ثبوت ملنے شروع ہو گئے۔
نواز حکومت کے کئی شرمناک کارناموں میں سے ایک کارنامہ وہ قانون پاس کرنا بھی تھا جس کے تحت نظریہ پاکستان کے خلاف بات کرنے پر دس سال قید کی سزا مقرر کی گئی اور توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کر کے قید کی جگہ موت کی سزا معین کی گئی۔
اس دور میں پہلی دفعہ شناختی کارڈ پر مذہب کا خانہ مقرر کیا گیا۔ پنجاب میں امن وامان کی خراب صورت حال سے نمٹنے کیلئے آئین میں بارہویں ترمیم کے تحت دہشت گردی سے نبٹنے کی خاطر خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں۔
پہلے نواز دور میں اخبارات اور انکے کارکنان کو سخت برے حالات دیکھنے پڑے۔
دی نیوز کے کامران خان کو انکے دفتر کے باہر چھری سے قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ شیری رحمان کو مسلسل ہراساں کیا گیا اور جیل کی سیر بھی کروائی گئی۔ ظفر عباس، غلام حسین اور شاہین صہبائی کے بیٹوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔
مہاجر جماعت کے بارے میں لکھنے کے باعث ظفر عباس کے گھر پر سات مسلح افراد نے حملہ کیا، انکو اور انکے بھائیوں کو مارا اور گھر کا سامان توڑا۔ تکبیر کے مدیر صلاح الدین کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ایک موقعے پر انکے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ اسی طرح ایک بار ہیرالڈ اخبار کی کاپیاں تباہ کر دی گئیں۔
سندھ میں امن امان کی صورت حال کو فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور کراچی میں فوج نے مہاجر جماعت کو خصوصی نشانہ بنایا۔
کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ پر قابو پانے کے لیے آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ کرنل عبیداللہ کے زیر نگرانی ایم کیو ایم حقیقی کا ڈول ڈالا گیا۔
جون 1991 میں فوج کے میجر کلیم الدین کو مہاجر قومی موومنٹ کے افراد نے چند ساتھیوں سمیت اغوا کر لیا (اس واقعے کے متعلق بہت سے شکوک و شبہات موجود ہیں اور حالات سے واقف لوگوں کے مطابق یہ محض ایک ٹوپی ڈرامہ تھا جو ’حساس اداروں‘ نے رچایا)۔
اس واقعے کو جواز بنا کر 1992 میں فوج نے کراچی میں آپریشن کیا اور اس واقعے کی ایف آئی آر میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کو نامزد کیا گیا۔
نواز حکومت کے اس دور میں پاکستانی حساس ادارے کے سربراہ جاوید ناصر (جنہیں بریگیڈیر امتیاز کی سفارش پر ترقی دی گئی تھی) نے بوسنیا، چین، فلپائن اور وسطی ایشائی ممالک میں لڑنے والے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ بھیجنے کا شرف حاصل کیا۔
اسلام آباد کے علاقے بنی گالا کو رہائشی علاقہ بھی اسی دور میں قرار دیا گیا۔ اس سے قبل وہ علاقہ نیشنل پارک کے زمرے میں آتا تھا۔
نجکاری کے نام پر میاں منشاء کی قسمت کھل گئی اور نجکاری والے آدھے سے زیادہ یونٹ میاں منشاء کو نوازے گئے۔ مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کے موقعے پر سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو بوگس بنیادوں پر مسترد کر دیا گیا اور بارہ افراد کی ٹولی کو جس میں میاں منشاء شامل تھے، بینک نواز دیا گیا۔
اس سے قبل نواز شریف کی پنجاب میں حکومت کے دوران پسرور شوگر مل کو ایک روپے کی قیمت پر بیچا گیا تھا۔ نجکاری کی اس لہر میں 68 مختلف یونٹوں کی نجکاری کی گئی جن میں سے بیس یونٹ نئے مالکان کی نااہلی کے باعث بند ہو گئے۔ اسلام آباد اور لاہور کے درمیان موٹروے کی تعمیر کا آغاز سنہ 1992ء میں کیا گیا۔
پہلے نواز دور میں پنجاب کو دوسرے صوبوں کے مقابلے میں غیر متناسب توجہ دی گئی اور یہی پہلو اس حکومت کے زوال کا باعث بنا۔ وفاقی کابینہ میں وزراء کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک برطرف حکومت بحال کی تھی لیکن پنجاب میں لالچ کرنے کی وجہ سے نواز شریف نے وفاقی حکومت بھی گنوا دی۔
قائم مقام وزیر اعظم معین قریشی نے نوے دن کی حکومت کے دوران ٹیکس دینے والے شہریوں کی فہرست شائع کروائی، بینکوں کے پانچ ہزار قرض نادہندگان کی فہرست شائع کروائی اور زراعتی آمدنی پر (عارضی) ٹیکس نافذ کرنے کا حکم دیا۔
اسی طرح انہوں نے بینک دولت پاکستان، ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کو خود مختاری عطا کی۔ انہوں نے وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ سے سرکاری رہائشی پلاٹ عطا کرنے کا اختیار واپس لیا۔ اس سے قبل سرکاری پلاٹوں کو سیاسی وفاداری خریدنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ قائم مقام وزیر اعظم نے پندرہ غیر ضروری وزارتوں اور دس سفارت خانوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔
اپنے تمام تر نیک اقدام کے باوجود معین قریشی صاحب حکومت کے آخری دنوں میں اپنے خاندان کے افراد کو مختلف سرکاری عہدوں پر تعیناتی یا ترقی کا تحفہ دیتے گئے۔
تاریخ نے ایک دہائی بعد اپنے آپ کو دہرایا جب 2008ء میں قائم مقام وزیر اعظم محمد میاں سومرو نے اپنے خاندان کے لیے شاہانہ مراعات حاصل کیں۔
(جاری ہے)
ریفرنسز:
Vintage Cowasjee: A Selection Of Writings From DAWN 1984-2011by Ardeshir Cowasjee
Constitutional and Political History of Pakistan. Hamid Khan. Second Edition. Oxford University Press
ISLAMIC PAKISTAN: ILLUSIONS & REALITY By Abdus Sattar Ghazali(http://www.ghazali.net/book1/contents.htm)
Nuclear Deception: The Dangerous Relationship Between the United States and Pakistan.Adrian Levy,Catherine Scott-Clarke
http://www.pakistani.org/pakistan/legislation/1991/actXof1991.html
http://cadtm.org/spip.php?page=imprimer&id_article=3074
http://monthlyreview.org/2005/10/01/privatization-at-gunpoint
http://www.cssforum.com.pk/css-compulsory-subjects/pakistan-affairs/3856-privatization-pakistan.html
Pakistan in the Twentieth Century: A Political History, Lawrence Ziring
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔