گو نواز گو!
میں آپ کو بتا رہا ہوں، نواز شریف میں اگر رتی برابر بھی غیرت ہوتی تو اب تک استعفیٰ دے کر جدّہ روانہ ہو گئے ہوتے۔ ایوب خان نامی ایک صدر ہوتا تھا اس ملک کا، اس کے پوتے نے کہیں سے دادا جی کے خلاف نعرہ سن لیا اور گھر آ کر کہا؛ 'ایوب کتا ہائے ہائے'۔ ایوب خان نے شرم کے مارے اسی وقت استعفیٰ دے دیا۔
بات یہ ہے کہ پورا نظام ہی کرپٹ ہے اس ملک کا۔ خان صاحب اور قادری صاحب کا طریقہ غلط ہو سکتا ہے، ان کے مطالبات بالکل درست ہیں۔ یہ جو پارلیمنٹ، وزیر اعظم ہاؤس اور پی ٹی وی پر حملوں کی تکلیف ہے آپ لوگوں کو، کیا اس ملک کے عوام سے زیادہ قیمتی ہیں یہ ادارے؟ ہمارے ٹیکس سے بنے ہیں یہ! ہمارے ووٹ چوری کیے گئے ہیں لہٰذا ہم احتجاج کا آئینی حق رکھتے ہیں۔ ہم جمہوریت کے نہیں، نواز لیگ کی آمریت کے خلاف ہیں;
جب تک جنتا بھوکی ہے، یہ جمہوریت جھوٹی ہے!
یہ کیا لندن پلان، لندن پلان کی تکرار لگا رکھی ہے آپ نے؟
یہ جو شہباز شریف ہر دوسرے مہینے رات کی تاریکی میں فوجی جرنیلوں سے ملتا ہے، وہ کونسے پلان کے مطابق ہے؟ مشرف کے دور میں بینظیر اور نواز لندن میں ملتے رہے، وہ صحیح تھا یا غلط؟
قیمے والے نان اور سری پائے کھانے والے نوا ز شریف اقوام متحدہ کے اجلاس کے بہانے ملک سے بھاگ گئے۔ وہاں کسی نے ان کی فضول تقریر سنی ہی نہیں۔ عمران خان جب تقریر کرتا ہے تو پورا پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا سنتی ہے۔
آپ بس ایک دفعہ کپتان کو وزیر اعظم بننے دیں، پھر دیکھیں ملک کیسے ترقی کرتا ہے، اوباما جیسے لوگ ناک رگڑتے پاکستان آئیں گے۔ آکسفورڈ سے پڑھا ہوا ہے خان صاحب نے، کوئی سنٹرل ماڈل جیسی پینڈو جگہ سے نہیں پڑھے وہ!
خیبر پختونخواہ میں ہماری حکومت ہے۔ وہاں کبھی جا کر دیکھیں کتنا کام کیا ہے ہماری پارٹی نے، انصاف مل رہا ہے وہاں لوگوں کو، پولیس کا نظام ٹھیک کیا ہے۔ اسمبلی میں سیاست دانوں کے بچے، داماد اور رشتے دار نہیں بیٹھے!
نورے پٹواری، پیپلز پارٹی کے جیالے تنقید کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ عوام تنگ آچکی ہے ان چلے ہوئے کارتوسوں سے۔ انہوں نے باریاں لگائی ہوئی ہیں، کھلم کھلا دھاندلی کرتے ہیں!
اور یہ برگر برگر کیا ہوتا ہے جی؟
کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے جلسوں میں جو لاکھوں لوگ شریک ہوئے، وہ سب برگر تھے کیا؟ او جاہلو، برگر کا مطلب ہے پڑھے لکھے لوگ! یہ گنوار، نورے پٹواری کیا جانیں پڑھے لکھے لوگ کیا ہوتے ہیں۔ اس ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کی کوئی قدر ہی نہیں۔ جب تک تعلیم یافتہ لوگوں کو وی آئی پی پروٹوکول نہیں دیا جائے گا، یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
میرے جیسے لوگ جو پاکستان سے باہر بیٹھے ہیں، انہیں زمینی حقائق کا تم لوگوں سے بہتر اندازہ ہے۔ ہم یہاں جمہوری نظام دیکھتے ہیں تو رشک آتا ہے۔ ہم ملک کی فکر میں کتنا نڈھال ہوتے ہیں، تم لوگ کیا جانو! ہم یہاں بیٹھے ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم اپنے سارے ضروری کام کاج چھوڑ کر بلّے کو ووٹ ڈالنے آئے تھے اتنی گرمی میں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری پارٹی پھر بھی نہ جیتے۔
سنا تھا میڈیا بڑا آزاد ہو گیا ہے، عدلیہ آزاد ہو گئی ہے۔ سب جھوٹ!
میڈیا کو ہماری مقبولیت ہضم نہیں ہوتی، ایک خاص گروپ کی تو ہمارے سے کوئی خاص دشمنی ہے۔ ڈالر خور اور لفافہ صحافی روز ایک انگریزی اخبار میں تحریک انصاف کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ ایسے غداروں کو چن چن کے بے نقاب اور ذلیل کرنا چاہئے۔ ایک ARY ہی مناسب چینل بچا ہے اس ملک میں، دونوں سائیڈز کی بات صحیح طرح بیان کرتا ہے۔
پاکستان میں ایک ہی ادارہ ہے جو کام کرتا ہے اور وہ ہے فوج۔ جنگ لڑنی ہو تو فوج کو بلاؤ، سیلاب آ جائے، زلزلہ آ جائے، دہشت گردی سے نبٹنا ہو، فوج سب سے آگے ہوتی ہے۔ یہ گنجے غدار اسی فوج کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہوئے ہیں!
شرم نہیں آتی انہیں! جانے بھی دیں مشرف کو باہر، جیل میں کیوں ڈالا ہوا ہے اسے۔ امپائر کی انگلی بس اٹھنے ہی والی ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
ہماری جاہل عوام کو بہکانے کیلئے آئے روز شوشا چھوڑا جاتا ہے کہ عمران یہودی ایجنٹ ہے، یا اسکی امریکہ میں ناجائز اولاد ہے، یا جمائمہ کے متعلق فحش بکواس کی جاتی ہے۔ ان لوگوں کو بندہ کیسے سمجھائے کہ سیاست دانوں کے ذاتی معاملات پر تبصرہ کرنا غیر جمہوری اور غیر اخلاقی فعل ہے۔ قائد اعظم کے بعد اگر کوئی بڑا لیڈر اس ملک میں آیا ہے تو وہ عمران خان ہے۔ ہم سب اسلامی فلاحی ریاست ہی تو بنانا چاہتے ہیں، جیسے سویڈن میں موجود ہے۔ ریاست ہو ماں کے جیسی، ہر شہری سے پیار کرے۔ سوتیلی ماں جیسا سلوک نہ ہو جو پرامن دھرنا دینے والوں پر لاٹھی چارج کرے اور ان پر آنسو گیس برسائے۔ چینی دانشور سن زو نے کہا تھا: پولیس ہمیں مارے گی تو انقلاب کیسے آئے گا؟
انقلاب کے بعد سب سے پہلے جاگیر داروں، وڈیروں، گدی نشینوں، سرمایہ داروں اور کوڑا چننے والوں کا صفایا کیا جائے گا۔ سارے کرپٹ سیاست دانوں، پولیس والوں اور بھتہ خوروں کو چوک میں لٹکایا جائے گا! آپ بس دیکھتے جائیں!
سبق پھر پڑھ شجاعت کا، شجاعت کا، شجاعت کا ۔۔۔۔
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔