میڈیکل کوٹہ سسٹم درست اقدام ہے؟
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی) کے صدر ڈاکٹر حمید نے حال ہی میں اعلان یا دعویٰ کیا کہ پچاس فیصد لڑکیاں میڈیکل میں گریجویشن کے بعد کبھی کام نہیں کرتیں، یہ بات گزشتہ ماہ کی اس خبر کے بعد سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ تمام سرکاری و نجی میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے پچاس، پچاس فیصد کوٹہ مختص کیا جارہا ہے۔
حقوق نسواں کے علمبردار، اشتراکیت پسند اور جدت پسد سمیت دیگر نے اس فیصلے کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا، اور کہا کہ صنفی تعصب اور عدم مساوات ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
صنفی مساوات کی جہاں تک بات ہے کہ کوئی بھی اس کی حقیقیت میں جانا پسند نہیں کرتا۔
ایک قوم کے طور پر ہم جنگلات کے درخت کے نظارے سے محروم نظر کی عادت میں مبتلا ہوگئے ہیں، ہمارے ہاں ایک خاتون وزیراعظم، ایک خاتون وزیرخارجہ، ایک نوبل انعام یافتہ خاتون ہیں، جبکہ اب لڑکیوں کو فوج میں شمولیت کی اجازت دے دی گئی ہے۔
سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو سرکاری اور نجی میڈٰکل کالجز میں خواتین طالبات کی تعداد 65 اور لڑکوں کی 35 فیصد ہے، پنجاب کے سب سے بہترین میڈیکل کالجز میں جہاں ایک کلاس میں اوسطاً تین سو طالبعلم ہوتے ہیں، وہاں یہ اعداد وشمار لڑکیوں کے حق میں اس سے بھی زیادہ نمایاں ہوتے ہیں، نوے کی دہائی کے آخر تک تمام میڈیکل کالجز میں خواتین کا تیس فیصد کوٹہ تھا تاہم لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد اسے ختم کردیا گیا تھا۔
پی ایم ڈی سی کے نئے اصول و ضواب کے نتیجے میں میڈیکل کالجز میں لڑکیوں کی تعدا میں کمی اور لڑکوں کو زیادہ مواقعے مل سکیں گے، مگر کیا یہ ضروری قدم ہے؟ کیا اس اکثریت کے لیے اس طرح کے منفرد کوٹے کی ضرورت تھی؟
کسی نتیجے سے پہنچنے سے پہلے کچھ اعدادوشمار کا جائزہ لینا زیادہ ضروری ہے۔
سالانہ چھ لاکھ کی طلب کے مقابلے میں صرف پچاس ہزار نئے گریجویٹس
پی ایم ڈی سی ویب سائٹ پر دستیاب اعدادوشمار سے ادنازہ ہوتا ہے کہ ملک میں رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹشنرز (جنھوں نے ایم بی بی ایس ڈگری کے حصول کے ساتھ ہاﺅس جاب مکمل کی ہو)کی تعداد ایک لاکھ 26 ہزار 931 ہے جن میں سے 71 ہزار 847 مرد(56.6 فیصد) اور 55 ہزار 84 خواتین(43.3 فیصد) ہیں۔
اس میں ایسی خواتین گریجویٹس کی تعداد میں واضح کمی دیکھی جاسکتی ہے جو درحقیت پوسٹ گریجویشن تعلیم مکمل کرچکی ہوتی ہیں۔
بی ڈی ایس(ڈینٹیل سرجری میں گریجویشن) میں خواتین گریجویٹس نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو پنجاب میں 540 اور سندھ میں 1085 ہے، تاہم پھر بھی اسپیشلسٹس کی تعداد نصف سے کم ہے۔
پنجاب میں صرف 3.72 فیصد پی ڈی ایس گریجویٹ خواتین ہی اسپشلائزیشن کرتی ہیں، جبکہ سندھ میں یہ شرح اس سے کم یعنی 2.74 فیصد ہے۔
چند سال قبل مختلف میڈیکل کالجز میں کوٹے کے سوال پر ایک سروے ہوا جس کے نتائج سولہ جولائی 2007 کو ڈان میں شائع ہوئے، ایک ہزار طالبعلموں (لڑکے اور لڑکیوں) جو ڈاﺅ اور ایس ایم سی میں ایم بی بی ایس کے چوتھے اور وآخری سال میں تھے کی آراءسے نے ایک خاکہ تیار کیا گیا۔
پچاسی فیصد لڑخیوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بیشتر خواتین ڈاکٹرز گریجویشن کے فوری بعد یا پانچ سے دس سال کے عرصے (زیادہ سماجی دباﺅ خاص طور پر شادی کے بعد) میں اس پیشے سے دستبردار ہوجاتی ہیں، جس سے ڈاکٹروں کی قلت کا مسئلہ حل نہیں ہوپاتا۔
پچھتر فیصد طالبعلموں اوپن میرٹ سسٹم کو مسترد کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ لڑکوں کے لیے نشستوں میں اضافہ کیا جانا چاہئے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ورکنگ خواتین کو زیادہ جارحانہ رویے کا سامنا ہوتا ہے جبکہ مرد طالبعلموں کو اس مسئلے کا سامنا نہیں ہوتا۔
کوٹے کا مطالبہ گزشتہ چند برسوں کے دوران زیادہ ابھر کر سامنے آیا اور اس کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی میں اس حوالے سے ایک قرارداد کی بھی نظور دی گئی۔
اب ڈاکٹر مسعود حمید ہمیں بتاتے ہیں"پاکستان ہر سال چودہ ہزار ڈاکٹرز تیار کررہا ہے جن میں سے ستر فیصد خواتین ہوتی ہیں، ملک میں چھ لاکھ کی طلب کے مقابلے میں پچاس سے ساٹھ ہزار میڈیکل پریکٹشنرز ہیں، یہ خدشہ ہے کہ میڈیکل کے پچاس فیصد طالبعلم کبھی بطور ڈاکٹر کام نہیں کریں گے، حکومت ایم بی بی ایس کے ہر ڈاکٹر پر لگ بھگ پچیس لاکھ روپے خرچ کرتی ہے، بدقسمتی سے کورس کی تکمیل کے بعد بیشتر طالبات کبھی کام نہیں کرتیں"۔
رویوں میں لازمی تبدیلی
لب لباب یہ ہے کہ گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران میڈیکل کالجز میں طالبات کی اکثریت رہی ہے مگر خواتین پریکٹشنرز اور اسپیشلسٹس کی تعداد قابل ذکر حد تک کم رہی ہے، دیگر الفاظ میں ان پٹ تو بڑھی ہے مگر آﺅٹ پٹ میں اضافہ نہیں ہوا۔
اس کی ایک جزوی وجہ تو سماجی مسائل ہیں جیسے کیرئیر کے درمیان شادی ہوجانا، جبکہ ایک چیز خواتین ڈاکٹرز کا رویہ ہے(جو دیہی علاقوں میں کام کرنا نہیں چاہتیں)۔
اہم بات یہ ہے کہ طب کے شعبے میں صنفی خلاءپر قابو پانے کے لیے کوٹہ سسٹم سے زیادہ بہتر طریقہ کار موجود ہیں۔
اس کا سب سے بہترین حل سماجی دباﺅ اور بہت زیادہ توقعات جیسے مسائل کو حل کرنے میں پوشیدہ ہے۔
ابھی یہ معاشرتی تصور عام ہے کہ لیڈی ڈاکٹرز کے ساتھ ٹرافی وائف جیسا سلوک کیا جائے اور اس کے نتیجے میں میڈیکل کے شعبے میں داخل ہونے والی خواتین کی تعداد بڑھ نہیں پاتی۔
والدین کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے، جبکہ ایف ایس سی یا اے لیول کی سطح پر کیرئیر کونسلنگ لازمی ہونی چاہئے، جبکہ حکومت کی جانب سے تمام میڈیکل گریجویٹس پر پانچ سال کے لیے لازمی خدمت کا نفاذ ہونا چاہئے۔
ماﺅزے تنگ کا مشہور قول ہے خواتین آدھے آسمان کو اٹھائے ہوئے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ خواتین کی جانب سے میڈیکل کے شعیبے کے حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے اور اپنی صنف کی دیگر ساتھیوں کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ آسان کیا جائے۔
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔