نقطہ نظر

معذوروں کے مسائل اور ان کے حل کا عالمی منصوبہ

پاکستان میں جسمانی معذور حضرات کو یا تو ملازمت دی نہی جاتی اور اگر دی جائے تو تنخواہ قابلیت کے لحاظ سے بہت کم دی جاتی ہے

Sustained Development یعنی پائیدار ترقی سے مراد ایسی ترقی ہے جس میں کرہ ارض پر بسنے والے تمام افراد میں ایک ساتھ آگے بڑھنے کی جستجو، سوچ میں بہتری اور ماحول کو صحت مند رکھنے کی صلاحیت ہو۔ یعنی آج ہمیں جو ذرائع میسر ہیں چاہے وہ قدرتی، انسانی یا غیر انسانی وسائل ہوں، انہیں بھرپور طریقے سے قابلِ استفادہ بنایا جائے اور آئندہ نسلوں کے لیے بہتری لانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ایسی ترقی کبھی بھی پائیدار نہیں ہوسکتی جس میں تمام اہم وسائل آج ہی استعمال کرلیے جائیں اور کل یعنی آئندہ نسلوں کے لیے کچھ بھی نہ بچے۔

2012ء میں اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے پائیدار ترقی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 2015ء میں اختتام پذیر ہونے والے ’نئے ہزاریے کے ترقیاتی مقاصد‘ یا Millennium Development Goals کو آگے بڑھانے کے لیے پائیدار ترقی کے اہداف (Sustained Development Goals) پر کام ہونا چاہیے۔ چنانچہ 2015ء میں انجمن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پائیدار ترقی کے اہداف کا مسودہ پیش کیا، جس کا دورانیہ 2015ء سے 2030ء تک ہوگا۔

پائیدار ترقی کے 17 اہداف ہیں جن میں غربت اور بھوک کا خاتمہ، اچھی صحت، معیاری تعلیم، صنفی مساوات، صاف پانی اور نکاسی آب، پائیدار توانائی، اچھا روزگار اور معاشی ترقی، جِدت اور بنیادی انفراسٹرکچر، ذمہ داری کھپت اور پیداوار، تحفظِ ارض، عالمی خوشحالی، پائیدار شہر اور کمیونٹی، زیرِ آب حیات، حیات بر زمین، امن و انصاف اور مستقبل کے لیے شراکت شامل ہیں۔

Sustained Development Goals یا پائیدار ترقی کے اہداف

پائیدار ترقی کے اہداف (SDG's) عالمی برادری کی طرف سے کرۂ ارض پر بسنے والے 6 ارب سے زائد انسانوں کی ترقی و نمو کا اظہاریہ ہے۔ ستمبر 2015ء میں حکومتِ پاکستان نے بھی پائیدار ترقی کے اہداف پر دستخط کرکے عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا۔ پائیدار ترقی کے اہداف پاکستان کی ترقی کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ اہداف ہمیں 2030ء تک کے لیے ایک لائحہ عمل مہیہ کرتے ہیں اور حکومتِ وقت کو یہ عندیہ دیتے ہیں کہ غربت کے خاتمے کے لیے پاکستان میں صنفی مساوات کے تحت صحت و تعلیم کی سہولیات تک تمام پاکستانیوں کی رسائی ممکن بنائی جائے۔

پڑھیے: پاکستان میں معذوروں کو ہمدردی نہیں خدمت گاروں کی ضرورت ہے

پائیدار ترقی کے اکثر اہداف میں افراد باہم معذوری کا ذکر ہے۔ لیکن اہداف نمبر 4، 8، 10، 11 اور 17 میں خصوصی طور پر معذوری کے متعلق ذکر کیا گیا ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

پاکستان میں معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خصوصی تعلیمی ادارے احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ صوبہءِ پنجاب میں تقریباً 264 تعلیمی ادارے سماعت و بصارت سے محروم طلباء، ذہنی پسماندگی اور جسمانی معذوری کے شکار طلباء کو تعلیم اور پیشہ وار تربیت سے آراستہ کر رہے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا معذور بچوں کو صرف خصوصی تعلیمی اداروں میں محدود کرکے انہیں معاشرے کا مفید اور فعال شہری بنایا جاسکتا ہے؟

جب تک اُن تمام ماحولیاتی اور معاشرتی رکاوٹوں کی نشاندہی نہیں کی جائے اور انہیں بتدریج ختم نہیں کیا تو منفرد صلاحیتوں کے حامل طلباء معذور بن جائیں گے اور آگے چل کر معاشرے پر بوجھ محسوس ہوں گے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں خصوصی بچوں کے لیے Inclusive Education System رائج ہوچکا ہے، جہاں پر عام طلباء اور خصوصی طلباء اکھٹے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں خصوصی طلباء کو Inclusive Education System اور Mainstream Education System میں لانے کے لیے تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو قابلِ رسائی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اساتذہ کرام کو معذوری سے متعلق آگاہی دینے، خصوصی طلباء کے لیے مددگار آلات کی اہمیت اور IEP) Individual Educational Program) سے متعلق آگاہی دینے کے لیے ٹیچرز ٹریننگ پروگرامز مرتب کرنے ہوں گے جبکہ معاشرے میں معذوری سے متعلق آگاہی کے لیے عام تعلیمی نصاب میں مضامین اور کہانیاں شامل ہونی چاہئیں۔

خصوصی تعلیمی اداروں میں معذور طلباء کی پیشہ ورانہ تربیت لیبر مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہم آہنگ ہونی چاہیے۔ معذور طالبات کو آرٹ اینڈ کرافٹ، کھانا پکانے، ڈریس ڈیزائیننگ اور بیوٹیشن کی پیشہ ورانہ تربیت فوراً برسرِ روزگار بناسکتی ہے، جبکہ معذور طالب علموں کو کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی، موبائل ریپئرنگ اور آن لائن جاب کی پیشہ ورانہ تربیت بیروزگاری سے بچا سکتی ہے۔

پڑھیے: فاطمہ میرا پہلا بچہ ہے جو آٹزم کا شکار ہے

پاکستان کی لیبر مارکیٹ میں افرادِ باہم معذوری کو شامل کرنے کے لیے جامع اور مربوط حکمت عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بحالی برائے معذوراں ایکٹ 1981ء کے مطابق تمام نجی و سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا 3 فیصد کوٹہ معذور افراد کے لیے مختص ہے لیکن صرف ملازمت کا حصول افرادِ باہم معذوری کو اُس وقت تک کار آمد نہیں بنایا جاسکتا ہے جب تک دفاتر، فیکٹریوں اور دیگر اداروں کی تعمیرات میں تبدیلی کرکے انہیں معذور افراد کے لیے قابلِ رسائی نہیں بنایا جائے گا۔

پاکستان میں معذوری سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے سبب اداروں کی انتظامیہ اور کارکنان خصوصی افراد کی ذہنی صلاحیتوں کا احاطہ نہیں کرپاتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ تعلیم اور مہارتوں کی بجائے صرف جسمانی معذوری کی بناء پر ملازمت کے لیے رد کردیا جاتا ہے یا اُن کی قابلیت کے لحاظ سے بہت کم تنخواہ کی پیش کش کی جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں معذورین کے لیے قابلِ رسائی ٹیکنالوجی اور مددگار آلات کی بدولت سماعت اور بصارت سے محروم افراد بھی آفس ورک باآسانی کرلیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی آجرین اور کاروباری اداروں کی انتظامیہ کو اس ضمن میں تربیت کی ضرورت ہے اور انہیں معذوری کی اقسام کے مطابق اپنے اداروں میں ملازمتیں پیدا کرنے کی آگاہی ملنی چاہیے۔

وطنِ عزیز میں معذور افراد کی معاشی و معاشرتی بحالی کے لیے ہر سطح پر سیاسی امور میں ان کی شمولیت لازم و ملزوم ہے۔ اگلے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے اہل معذور ووٹرز کی شمولیت کو مکمل بنانے کے لیے جامع پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن، نادرا اور افرادِ باہم معذوری کو متحرک ہونا پڑے گا۔

ہمارے ملک میں مقامی حکومت، صوبائی و وفاقی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی طرح معذور افراد کے لیے بھی نشستیں مختص ہونی چاہئیں تاکہ افرادِ باہم معذوران سے متعلق بننے والی تعمیر و ترقی کی تمام پالیسیوں کے بارے میں اُن کی رائے شاملِ حال رہے، کیونکہ وہ اپنے مسائل اور اُن کا حل کی بہتر طور پر نشاندہی کرسکتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں بحالی برائے معذوران ایکٹ 1981ء کے بعد افرادِ باہم معذوراں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی قابلِ ذکر قانون سازی نہیں ہوسکی ہے، مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں نے معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کا بِل پاس کردیا ہے، جبکہ جنوری 2018ء میں وفاقی اسمبلی میں بھی پاکستان (پاکستان بل برائے حقوق باہم معذوری بل 2017ء) The Pakistan Rights of Persons with disabilities Bill 2017 پیش کردیا گیا ہے، جو مزید غور و فکر اور مباحثے کے لیے متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس مرحلے سے گزر یہ یہ بل سینیٹ کے سامنے پیش ہوگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سینیٹ اور وفاقی اسمبلی اس بل کو جلد منظور کرلے گی اور پاکستانی معذور افراد کو بھی اپنے حقوق کی پاسداری کے لیے قانونی تحفظ مل جائے گا۔

پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے

تعلیم و تربیت کے حصول، ملازمت و کاروبار، سیر و تفریح اور شاپنگ وغیرہ کے لیے عام شخص کی طرح معذور شخص کو بھی گھر سے باہر لازماً نکلنا ہوتا ہے۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ اُن کے لیے قابِل رسائی نہیں ہوگی تو یوں وہ گھروں تک ہی محصور ہوجائیں گے۔

ترقی یافتہ ممالک خصوصاً جاپان، امریکا، کینڈا وغیرہ میں شدید ترین معذور افراد کی ذہنی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانے اور معاشرے کا فعال شہری بنانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو 100 فیصد قابِل رسائی بنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے اسلام آباد، لاہور اور ملتان میں میڑو بس اور لاہور اور ملتان میں اسپیڈو بس سروس کا آغاز ہوچکا ہے جو کہ وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے قابِل رسائی ٹرانسپورٹ ہے۔ وفاقی حکومت اور حکومتِ پنجاب کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے۔ 2030ء تک اُمید کی جاسکتی ہے کہ عورتوں، بچوں، بزرگوں اور افرادِ باہم معذوراں کے لیے پاکستان کی تمام پبلک ٹرانسپورٹ قابلِ رسائی بن جائے گی۔

ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی موٹر سائیکل اور موٹر کار کمپنیاں معذور افراد کے لیے مقامی سطح پر موٹر سائیکل اور گاڑیاں ڈیزائن کرکے نہ صرف اپنے صارفین کی تعداد بڑھا سکتی ہیں بلکہ لاکھوں معذور افراد کو متحرک بھی کرسکتی ہیں۔

پڑھیے: میں معذور ہوں تو کیا ہوا، ووٹ میرا بھی حق ہے

عبادت گاہیں حضرتِ انسان کا اپنے رب سے تعلق مضبوط بناتی ہیں، جبکہ تفریح گاہیں مثلاً پہاڑی علاقے، ساحلِ سمندر، جھیلیں اور پارک وغیرہ نہ صرف انسان کو قدرتی نظاروں کے قریب کرتے ہیں بلکہ اُن کو ذہنی سکون بھی فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی افرادِ باہم معذوری کے لیے عبادت گاہوں اور تفریح گاہوں کو قابلِ رسائی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اِن مقامات پر سماعت سے محروم افراد کے لیے signs یعنی اشارے نصب ہونے چاہئیں۔ بصارت سے محروم افراد کے لیے Tacit Tiles اور ابھرے ہوئے نشان نصب ہونے چاہئیں۔ جسمانی معذور افراد کی وہیل چیئر کے لیے قابلِ رسائی راستے بنانے چاہئیں۔

ملک کی آبادی کا تخمینہ لگانے اور کُل آبادی کے مطابق معاشی پالیسیاں ترتیب دینے کے لیے پاکستان کی چھٹی مردم شماری کا انعقاد سال 2017ء میں ہوا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جس طرح معذور افراد کا ہر سطح پر معاشی اور معاشرتی استحصال جاری ہے، حالیہ مردم شماری میں بھی انہیں بُری طرح نظر انداز کردیا گیا ہے۔ مردم شماری کے فارم 2 میں معذور افراد کے بارے میں معلومات کے اندراج کا خانہ بروقت شامل نہ ہونے سے پاکستان میں افرادِ باہم معذوری کے درست اعداد و شمار معلوم نہیں کیے جاسکے تھے۔ چیئرمین قومی ادارہ برائے شماریات سے استدعا ہے کہ عالمی پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 17.18 کو حاصل کرنے کے لیے ہنگامی پلان کا اعلان کریں۔

سائرہ ایوب

سائرہ ایوب لاہور کے ایک سرکاری کالج میں معاشیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ معذوری کے حوالے سے افسانے اور مضامین لکھتی رہتی ہیں اور معذوروں کے مسائل اور ان رکاوٹوں پر روشنی ڈالتی ہیں جن کی وجہ سے معذور حقیقتاً معذور بن جاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔