صحت

ہارٹ اٹیک کی نئی قسم دریافت

دل کے دورے کی اس نئی قسم سے ابتدائی طور پر خواتین متاثر ہوتی ہیں،اس قسم کو ڈاکٹر ہارٹ اٹیک سمجھتے ہی نہیں۔

عام طور خیال کیا جاتا ہے کہ ہارٹ اٹیک یعنی دل کے دورے کی 4 اقسام ہیں، تاہم اب کینیڈا کے ماہرین نے اس کی ایک نئی قسم دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

خیال رہے کہ عام طور پر ہارٹ اٹیک کی 4 اقسام’acute coronary syndrome‘ (اے سی ایس) ’ ST segment elevation myocardial infarction‘ (ایس ٹی ای ایم آئی) ’ on-ST segment elevation myocardial infarction‘ (این ایس ٹی ای ایم آئی) اور ’ coronary spasm‘ یا ’ unstable angina‘ بتائی جاتی ہیں۔

تاہم اب کینیڈا کی یونیورسٹی آف البرٹا کے ماہرین نے اپنی تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ہارٹ اٹیک کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے، جو ابتدائی طور پر زیادہ تر خواتین کو متاثر کرتی ہے۔

ہارٹ اٹیک کی نئی قسم سے زیادہ تر خواتین متاثر ہوتی ہیں، ماہرین—فوٹو: شٹر اسٹاک

ہیلتھ جرنل ’انٹرنیشنل جرنل آر کارڈیولاجی‘ میں شائع تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے ’ myocardial infarction with nonobstructive coronary arteries ‘ (مائنوکا) نامی ہارٹ اٹیک کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہارٹ اٹیک کی یہ نئی قسم ابتدائی طور پر زیادہ تر خواتین کو متاثر کرتی ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ماہرین صحت ہارٹ اٹیک کی اس قسم کو دل کا دورہ سمجھتے ہی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہارٹ اٹیک کی 7 خاموش علامات

رپورٹ کے مطابق چوں کہ ہارٹ اٹیک کی یہ قسم باقی اقسام کی طرح دل کو خون پہنچانے والی شریان کی خرابی سمیت ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والی دیگرعلامات کی وجہ سے نہیں ہوتی، اس لیے ماہرین صحت اسے دل کا دورہ ہی نہیں سمجھتے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دل کے دورے کی یہ قسم عام طور پر دل کی سوزش اور دل کو خون ترسیل کرنے والی نالی میں پائے جانے والے انتہائی باریک اور چھوٹے غدود ہیں۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہارٹ اٹیک کی اس قسم سے متاثر ہونے والے 60 فیصد مریضوں کو ماہرین امراض قلب کوئی دوا ہی نہیں دیتے اور مریض کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیتے ہیں کہ انہیں دل کی کوئی بیماری نہیں۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کیوں کہ دل کے دورے کی اس قسم کی علامات بھی مختلف ہیں، اس لیے ماہرین اسے ہارٹ اٹیک نہیں سمجھتے۔

رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہارٹ اٹیک کی یہ نئی قسم دیگر اقسام سے کتنی خطرناک ہے اور اس سے دنیا بھر میں سالانہ کتنی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔