نقطہ نظر

انتخابی ساون اور امیدوار پتنگے

’پوری کالونی کی طرف سے وعدہ کرتی ہوں اس بار آپ کےنازک کندھوں پرقومی ذمہ داریوں کابوجھ نہیں ڈالیں گے،نہیں دیں گےآپکو ووٹ‘

سیانے کہتے ہیں کہ چرند پرند موسم کے مطابق اپنا ٹھکانہ بدلتے ہیں اور حشرات الارض گرم سرد موسم کے مطابق زیرِ زمین یا سطحِ زمین پر رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور سیانے ہمیشہ سچ ہی کہتے ہیں۔

بچپن سے اب تک یہی دیکھا اور یہی سنا۔ خاص کر برسات میں نکلنے والے حشرات اور پتنگوں کی نسلیں ہی بہت نایاب سی لگتی ہیں، بارش ہوئی نہیں کہ انسان موسم کا لطف اٹھانے کا سوچے یا کیڑے مار دوا کی بوتل تھامے؟

ادھر طوفانی بارش ہوئی اور کھلی جگہوں پر جلتی اسڑیٹ لائٹس کے اردگرد منڈلاتے پتنگوں نے نہ جانے کیوں جگہ جگہ لگے سیاسی کیمپ یاد دلا دیے۔ ویسے تو یہ کامبی نیشن مزے کا ہے۔ یہاں ساون کا آغاز ہوا اور وہاں الیکشن مہم کا۔

گو بہت کچھ مشابہہ ہے ان دونوں پتنگوں میں، لیکن ایک بات مختلف ہے۔ برسات کے پتنگے ہر سال ایک بار اپنے موسم میں جلوہ گر ضرور ہوتے ہیں مگر سیاسی پتنگے 5 سال بعد اپنے دیدار کا شرف بخشتے ہیں۔ ویسے تو جتنے منہ اتنی باتیں، لیکن جناب 5 سال بعد ہی سہی ہمیں کالے شیشوں والی گاڑی سے باہر تو نظر آتے ہیں یہ لوگ۔

کچھ روز پہلے تیز دھوپ میں گھر آتے ہوئے نزدیک سبزی کی دوکان پر رکنا پڑا۔ بس جناب وہاں جو منظر دیکھنے کو ملا اسے دیکھ کر ایمان تازہ اور آنکھ نم ہونے کے قریب تھی۔ ایک بابا جی (کوئی پچاس کی عمر کے قریب تو ہوں گے)، چلیں ان کی ناراضگی کے خوف سے انکل ہی کہہ لیتے ہیں، دونوں ہاتھوں میں سامان سے بھرے لفافے تھامے دوکان سے گھر کی طرف روانہ ہوئے کہ اچانک کالے رنگ کی چمچماتی گاڑی سے ایک صاحب باہر نکلے اور بضد تھے کہ وہ بابا جی شاپر بھی ان کو دے دیں اور گاڑی میں بھی بیٹھ جائیں تاکہ گرمی کی شدت سے محفوظ رہیں اور اے سی میں بیٹھ کر گھر پہنچ سکیں۔

پڑھیے: اَپر کلاس امیدواروں کے مڈل کلاس اثاثے

بہت اصرار کے بعد بابا جی کو ہار ماننی پڑی اور دعائیں دیتے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ واہ، آج کے دور میں ایسا خیال وہ بھی کسی انجان کا؟ کیا کیا نہیں سوچا اس دل و دماغ نے ان صاحب کے بارے میں کہ کتنے خدا ترس انسان تھے وہ۔

اپنے گھر پہنچ کر ابھی اے سی آن ہی کیا تھا کہ ڈور بیل بجی۔۔ اتنی سخت گرمی میں جو بھی آئے، دل سے کچھ اور ہی نکلتا ہے۔ جب دیکھا تو وہی گاڑی اور دو چار اور گاڑیاں ہماری گلی میں کھڑی تھیں اور بڑی تعداد میں جھنڈے بھی بچوں کو دیے جا رہے تھے اور انہی رنگوں کے غبارے بھی۔ بچوں کی تو خیر عید ہوگئی لیکن حواس بحال ہوئے تو سمجھ آیا کہ یہ کچھ الیکشن کے پتنگے لگ رہے ہیں۔ اب ذرا دماغ نے دل تک سگنلز پہنچائے۔ لفظ ترتیب پانے لگے، لڑی سے لڑی جڑنے لگی اور آخر کان کھڑے ہوئے اور آنکھیں مزید چمکدار، کیوں کہ اسے ہی تو کہتے ہیں موقع موقع!

کچھ ادیبانہ، صحافیانہ اور باغیانہ جراثیم کہیں ایک ساتھ ذہن میں یکجا ہونا شروع ہوئے؛ ارے جناب! ویسے ہی جیسے ساون کے کچھ کالے، کچھ سنہرے اور کچھ سفید بادل جو آسمان پر اکیلے گھوم رہے ہوتے ہیں جب برسنے کا وقت آئے تو یوں ہی یکجا ہوتے ہیں اور اللہ کا احسان ہے کہ محلے والے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کہا مانتے بھی ہیں۔

گیٹ کھولا تو کالے چشمے والے صاحب (نام لکھنے سے پرہیز کر رہی ہوں لیکن جانتی ہوں ہر سیاسی پتنگے کا نام یہاں موزوں لگے گا اور ہر حلقے کے عوام کے بھی میرے جیسے ہی جذبات ہونگے) بڑی دلفریب (مکارانہ مناسب لفظ ہے ویسے) مسکراہٹ لیے والہانہ سلام عرض کرنے کے لیے تشریف لائے، جبکہ ساتھ ہی ایک نوجوان ٹشو پیپر کا ڈبہ لیے کھڑا تھا اور دوسرا ان کے سر پر چھتری کا سایہ کیے۔

دل میں ابلتے لاوے کو بند باندھ کر روکا اور ایک ویسی ہی دلفریب (معصومانہ؛ اپنی لسی کو کون کھٹا کہتا ہے؟) مسکراہٹ کے ساتھ سلام کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا؛ ’بہت معذرت پر اگر آپ کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہے تو ہمارے ہاں اس کی کوئی سہولت میسر نہیں، اور اگر پیڑول ختم ہوگیا تو الحمدللہ ناجائز کام کبھی کیا نہیں اس لیے وہ پیڑول پمپ پر ہی ملے گا، ہاں اگر پانی چاہیے تو وہ ابھی دیتی ہوں مگر لوڈ شیڈنگ کی زیادتی کی وجہ سے وہ بہت ٹھنڈا نہیں ہوگا۔‘

ایک سیکنڈ محترمہ! میری بات سن لیجیے، یہ سب نہیں چاہیے۔ حیرت سے آنکھیں باہر نکالنے کی اداکاری کرتے ہوئے میں بولی تو کیا آپ محلے کے شرارتی بچوں کی طرح گھروں کی بیلیں بجا کر اپنا شوق پورا کر رہے تھے؟ بہت ناگوار منہ بناتے ہوئے اس سے پہلے کہ وہ صاحب کچھ کہتے ان کے پاس کھڑا چھتری والا لڑکا بولا آپ نے شاید پہچانا نہیں انہیں۔ یہ اس حلقے کے منتخب نمائندے رہے ہیں 5 سال اور ...

اس سے پہلے کہ وہ 'اور' شروع ہوتا میری بے قرار زبان سے فوراً نکلا، ’اوہ اب سمجھی۔۔’

کیا چمک آئی تھی اس ایک جملے سے ان سب کی آنکھوں میں کہ میں نے جملہ مکمل کیا۔

’میں پوری کالونی کی طرف سے وعدہ کرتی ہوں کہ اب کی بار آپ کے نازک کندھوں پر قومی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ نہیں دیں گے آپ کو ووٹ‘۔

بولنے کا موقع نہیں دیا، بات جاری رکھی میں نے۔

’میں بہت شرمندہ ہوں، اس سے پہلے آپ کو پوسٹر پر لگی تصاویر پر دیکھا تھا تو اندازہ نہیں تھا آپ کا، لیکن آج آپ کو سامنے دیکھ کر دل میں موجود سب گلے شکوے ختم۔ آپ تسّلی سے واپس جائیں۔ جو شخص اپنا بوجھ خود نہیں اٹھا سکتا، اپنے سر پر خود چھاؤں نہیں کرسکتا، اس بیچارے پر ہم لوگوں نے اپنی نادانی میں 5 سال اتنا بوجھ ڈالے رکھا۔‘

محترم منتخب نمائندے کی آنکھوں میں اترنے والا غصہ اور ناگواری بتا رہی تھی کہ اگر ذرائع ابلاغ کے نمائندے وہاں موجود نہ ہوتے تو اپنی دورِ اقتدار والی زبان سے کچھ ارشاد ضرور فرماتے، مگر ہائے افسوس، غریبوں کو دھتکارنے والی رعونت بھری نظریں اور چلانے والی زبان آج بتیسی کے اندر رہنے کو ہی ترجیح دے رہی تھی، لیکن اس کے باوجود وہ پھر بھی گویا ہوئے۔

’دیکھیے محترمہ! ہماری جماعت نے بہت ترقیاتی کام کیے ہیں اس حلقے میں۔ آپ گھریلو خاتون ہیں آپ کو کیا معلوم کہ کہاں کہاں سڑکیں پکی ہوئیں؟ کون کون سے منصوبوں پر کام جاری ہے۔‘

’ایک منٹ!‘

ہماری سوسائٹی کے سربراہ سے خاموش نہ رہا گیا۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ گھریلو خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں اور دوسرا یہ کہ جس سڑک پر آپ کھڑے ہیں یہ 5 سال پہلے اس سے کچھ بہتر حالت میں تھی کیوں کہ ہم سب نے چندہ جمع کرکے اپنی مدد آپ کے تحت اسے بنوایا تھا۔ آپ کو ووٹ دینے کے بعد منتظر رہے کہ آپ عوامی نمائندے بن کر کب اپنا فرض نبھانے آتے ہیں۔ مگر افسوس! سڑک کی حالت پہلے سے بھی غیر ہوگئی مگر آپ نے ماشااللہ 'ہونڈا سوک' سے ترقی کرکے 'مرسڈیز' لے لی۔

پسینہ بہنے کی رفتار اب شدت اختیار کرچکی تھی۔ اسی اثناء میں بیٹری والا پنکھا گاڑی سے نکال کر ان صاحب کی طرف رخ کرکے لگا دیا گیا۔ اچانک ہمارے محلے کے ایک معتبر سفید پوش انکل گلاس میں شربت لیے آگئے اور انہیں پیش کیا۔ مگر وہ صاحب اسے لینے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔

انکل نے کہا ’بیٹا ہماری روایت ہے کہ گھر آئے مہمان کو کھلائے پلائے بغیر واپس نہیں لوٹاتے۔ منرل واٹر سے بنا ہے شربت!‘

عوامی نمائندے نے گلاس تھاما ہی تھا کہ میں نے ان سے کہا، ’جانتے ہیں یہ انکل آپ کے دفتر پورا ایک مہینہ جاتے رہے، باہر بیٹھ بیٹھ کر انتظار کرتے رہے نہ تو ان کی درخواست وصول کی گئی اور نہ ہی کبھی شرفِ ملاقات بخشا گیا۔ آپ جانتے ہیں؟ کینسر تھا ان کے جوان بیٹے کو۔ تڑپتے رہے کہ کہیں سے پیسوں کا انتظام ہوجائے کہ بیٹے کا آپریشن ہو سکے۔ ہم سب نے مل کر بھی اپنے تئیں کچھ کیا مگر اسے باہر نہیں بھجوا پائے۔ مر گیا آخر۔‘

اتنی پہچان تو ہوگی آپ کو شاید کہ 5 سال پہلے آپ کے لیے سب سے زیادہ ووٹ انہوں نے ہی ہر دروازے پر جا کر مانگے تھے۔

’دیکھیے محترمہ! سیاست جذبات سے نہیں ہوتی۔ میں گھر گھر جا کر ان کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ عہدہ رکھنا آسان کام نہیں۔ کوشش کرتا ہوں کہ جتنا ممکن ہو اپنے لوگوں کے کام آ سکوں۔‘

اب میری برداشت ختم ہو رہی تھی مگر تربیت گھر آئے مہمان کو مزید شرمندہ کرنے میں آڑے آرہی تھی۔

’سنیے صاحب! پہلے زمین پر زمین والوں کے ساتھ چلنا سیکھیں، آپ شاید خود کو وہ روشنی سمجھتے ہیں جن کے گرد پتنگے گھومتے ہیں لیکن اب چشمہ بدلنے کا وقت ہے۔ روشنی ہم ہیں اور پتنگے آپ۔ ہم ہیں تو آپ ہوں گے۔ شمع گل ہوئی تو پتنگے کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اس لیے اب روشنی کا تعاقب آپ نے کرنا ہے! یہ بھی طے ہے کہ یہ روشنی اب مزید اجالا لائے گی لیکن اگر پتنگے تنگ کرینگے تو روشنی بجھے گی نہیں بلکہ ان سے نجات کے لیے اسپرے کا استعمال کیا جائے گا اور وہ اسپرے ووٹ کی پرچی ہے جو اس دفعہ آپ کو نہیں ملنے والی۔‘


یہ ایک طنزیہ مضمون ہے جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔

سعدیہ مظہر

سعدیہ مظہر صحافی اور سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف قومی جرائد میں انگریزی اور اردو زبان میں لکھتی ہیں۔ ان کا ای میل saddiausman04@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔