پاکستان

کراچی کی روایت شکن خواتین میٹر ریڈرز

’اب مجھے اس کام میں مشکل نہیں ہوتی اور مجھے یہ کام کرتے اور باعزت روزگار کماتے دیکھ کر دیگر خواتین بھی میری پیروی کر رہی ہیں‘۔

وہ عمارت میں داخل ہوتے ہی ایک بڑی دیوار کی جانب بڑھ گئیں جہاں بجلی کے تمام میٹر نصب تھے۔ وہ فوراً ہی اپنے کام میں مشغول ہوگئیں، انہوں نے دستانے پہنے اور اپنا موبائل فون تھام لیا، لیکن پہلے انہوں نے (میٹر کی) اسکرین پر موجود مٹی صاف کی تاکہ ریڈنگ کی صاف تصویر لی جاسکے۔ یہ تصویر آپ کے بجلی کے بل پر پرنٹ ہوگی۔

یہ ’کے الیکٹرک‘ کی خاتون میٹر ریڈر ہیں۔ ویسے تو وہ گزشتہ 4 سال سے یہ کام کر رہی ہیں لیکن ان پر اب زیادہ توجہ دی جارہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ان ہی جیسی کئی دیگر خواتین بھی یہ کام انجام دے رہی ہیں۔

فرزانہ کوثر نے 39 سال کی عمر میں یہ نوکری شروع کی، اس وقت انہیں بہت کچھ سننا پڑا جیسے کہ ’یہ ممکن نہیں ہے‘، ’تم یہ کام نہیں کر سکتیں‘، ’یہ خواتین کے کرنے کا کام نہیں ہے‘، ’آخر لوگ کیا کہیں گے؟‘۔۔۔ تاہم انہوں نے تمام منفی چیزوں کو نظر انداز کیا اور مثبت کو اپنا لیا، لیکن ایسا انہوں نے صرف زندگی میں کیا۔ اگر آپ ان کے کام میں مثبت اور منفی کے بارے میں معلوم کریں گے تو وہ بتائیں گی کہ اس کا تعلق کرنٹ سے ہے۔ ’جو کرنٹ سرکٹ میں داخل ہوتا ہے وہ پازیٹو (مثبت) ہوتا ہے اور جو سرکٹ سے باہر جارہا ہوتا ہے وہ نیگیٹو (منفی) ہوتا ہے‘۔

فرزانہ کا تعلق لیاری سے ہے۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’4 سال قبل ہمارے پہلے بیچ میں صرف 4 خواتین تھیں، میں اس میں یوں شامل ہوئی کہ مجھے کچھ الگ کرنا تھا۔ مجھے اپنے لوگوں سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس حوالے سے لیاری کافی روشن خیال اور مددگار ثابت ہوا‘۔

اپنی تربیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میٹر ریڈنگ کی تربیت کے علاوہ انہیں موٹر سائیکل چلانا اور کسی حد تک مارشل آرٹس کی بھی تربیت دی گئی۔ ان کے مطابق ’اس وقت کے الیکٹرک کے عملے کو کچھ خطرات کا سامنا تھا اور مجھے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں اپنا دفاع کرنا سکیھنا تھا‘۔ تاہم ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ ’اب مجھے اس کام میں کوئی مشکل نہیں ہوتی اور مجھے آسانی کے ساتھ یہ کام کرتے اور باعزت روزگار کماتے دیکھ کر دیگر خواتین بھی میری پیروی کر رہی ہیں‘۔

40 سالہ نازیہ مراد بھی ایک میٹر ریڈر ہیں۔ وہ میٹر ریڈرز کے دوسرے بیچ میں شامل تھیں جس میں کُل 9 خواتین موجود تھیں۔

نازیہ نے ہمیں بتایا کہ ’ایک ہفتے کی ابتدائی تربیت کے بعد میں ایک ماہ تک اپنے سینیئرز کے ساتھ مختلف علاقوں میں میٹر ریڈنگ کرتی رہی۔ اب میں خود سینیئر ہوچکی ہوں اور عموماً اکیلے ہی کام کرتی ہوں، بعض اوقات ہمیں کسی جونیئر کی رہنمائی کے لیے اسے اپنے ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔ شعبہ آئی ٹی کی جانب سے شیڈول ملنے کے 20 دن بعد ہم ریڈنگ لینا شروع کرتے ہیں۔ ہم علاقے کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ایک گروپ ایک ساتھ ایک علاقے میں جاتا ہے جہاں ہر ریڈر کو ایک مخصوص حصہ دے دیا جاتا ہے، کام مکمل کرنے کے بعد ہم دوبارہ جمع ہوتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ اچھا ہے کہ نئے میٹر زیادہ اونچائی پر نہیں لگائے جاتے۔ ’5 فٹ اونچائی تک تو ہم ریڈنگ لے سکتے ہیں لیکن اگر اونچائی اس سے زیادہ ہو تو پھر مشکل ہوسکتی ہے۔ یہ بھی اچھا ہی ہے کہ نئے میٹر گھروں کے باہر نصب ہوتے ہیں یوں ہمیں صارفین کو گھر کا دروازہ کھولنے کی زحمت نہیں دینی پڑتی، بہرحال اگر انہیں بل یا کسی اور حوالے سے کوئی مسئلہ ہو یا وہ ہمیں دیکھ لیں تو باہر آکر کچھ بات چیت کر لیتے ہیں۔

’لیکن صارفین ایک خاتون کو میٹر ریڈنگ درج کرتے ہوئے دیکھ کر خوشگوار حیرانی میں ضرور مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کچھ تو اس کام کے حصول کا طریقہ کار بھی معلوم کرتے ہیں، ہم انہیں مطلوبہ اہلیت کے بارے آگاہ کر دیتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ خود بھی گریجوایٹ ہیں اور یہ کہ اس نوکری میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے امکانات موجود ہیں۔

نازیہ نے بتایا کہ میٹر ریڈرز کے تیسرے بیچ میں 4 سے 5 خواتین موجود ہیں جبکہ سب سے نئے چوتھے میچ میں 11 خواتین ہیں۔ ان خواتین کو لیاری، کورنگی، لانڈھی، گلستان جوہر، سرجانی ٹاؤن اور ملیر میں تعینات کیا گیا ہے۔

بجلی کے ترسیل کار اس ادارے نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ’روشنی باجی‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جو کہ عمومی تحفظ، الیکڑیکل سیفٹی، بارش کے دوران تحفظ، بجلی چوری کے خطرات اور بجلی بچانے کے حوالے سے آگاہی فراہم کرتی ہیں۔ ان خواتین کو پاکستان کی پہلی سرٹیفائیڈ خواتین الیکٹریشن بھی بتایا جارہا ہے۔ کے الیکٹرک نے 5 خواتین گرڈ آپریٹنگ افسران کی بھی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ وہ بجلی کی ترسیل کے چیلنج سے بھی نبرد آزما ہو سکیں۔


یہ خبر 23 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔