پاکستان

قائمہ کمیٹی کا سی پیک ورکنگ گروپس میں سینیٹرز کی رکنیت کا مطالبہ

قائمہ کمیٹی کی سفارشات 22 اکتوبر کو سی پیک کے مشترکہ ورکنگ گروپوں کے سربراہان کو پیش کردی گئی ہیں، ایڈیشنل سیکریٹری

سینیٹ پینل نے پاکستان ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ہر مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جیز) میں ایک، ایک سینیٹر کی رکنیت کا مطالبہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ غیر پیداواری اور سست رفتاری سے چلنے والے منصوبوں کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے تمام وزارتوں کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کا اجلاس پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا۔

اجلاس کے دوران 16 ستمبر کی سفارشات پر پیش رفت رپورٹ حاصل کرتے ہوئے پینل نے سی پیک اتھارٹی سے اپنے مطالبے سے متعلق معلومات طلب کی، مطالبے کے تحت مستقبل کے منصوبوں کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا ایک رکن سی پیک کے مشترکہ ورکنگ گروپوں کا حصہ ہوگا۔

ایڈیشنل سیکریٹری نے منصوبہ بندی کمیٹی کو آگاہ کیا کہ جے ڈبلیو جیز کی سربراہی متعلقہ وزارتوں کے سیکریٹری اور ڈویژنز کر رہے ہیں جو گروپوں کی تشکیل سے متعلق معاملات پر فیصلے کرتے ہیں، قائمہ کمیٹی کی سفارشات 22 اکتوبر کو سی پیک ورکنگ گروپوں کے سربراہان کے سامنے پیش کردی تھی، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: سی پیک پر کام کی سست رفتار سے چینی کمپنیاں پریشان

اجلاس میں ان منصوبوں کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی جن کی لاگت 2 ارب روپے سے کم ہے۔

کمیٹی کے اراکین نے ترقیاتی منصوبوں کے وقت اور اخراجات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔

عہدیداران نے کمیٹی کو اخراجات اور وقت میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت زیادہ مطالبات بہت کم وسائل کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی مالی صلاحیت اتنے سارے منصوبوں کو فنڈ دینے کے لیے ناکافی ہے جبکہ کیونکہ فہرست بڑھتی جارہی ہے۔

کمیٹی نے متفقہ فیصلہ کیا کہ ہر ڈویژن اور وزارت کے نمائندگان سے ملاقات کرتے ہوئے ان سے منصوبوں میں تاخیر اور اخراجات میں اضافے سے متعلق رپورٹ طلب کی جائے گی۔

وزارت منصوبہ بندی نے تجویز دی کہ 11-2010 میں شروع ہونے والے منصوبہ کی تفصیلات کے مطالعے کے لیے فرسٹ اِن فرسٹ آؤٹ (فیفو) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک پر سست پیش رفت پر اظہار تشویش

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے اس طرح کے منصوبوں کا جائزہ اتھارٹی کے نمائندوں، پلاننگ کمیشن اور وزارت مواصلات کی موجودگی میں لیا جائے گا۔

اس سلسلے میں کمیٹی نے سوال کیا کہ مالیاتی ڈویژن کے پورٹ فولیو میں بڑی تعداد میں منصوبے کیوں ظاہر ہو رہے ہیں، ان منصوبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی اسکیمیں بھی شامل ہیں۔

کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ منسوخی سے متعلق پالیسی نہ ہونا بھی منصوبوں کی عدم تکمیل کی ایک وجہ ہے۔

حکام نے بتایا کہ ’آج تک کوئی منصوبہ منسوخ‘ نہیں ہوا۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ فیفو طریقہ کار کے ذریعے پی ایس ڈی پی کا بوجھ کم کرنے کے لیے منسوخی سے متعلق پالیسی متعارف کروانے کے لیے سفارشات پیش کی جائیں۔

مزید پڑھیں: نئی گج ڈیم کی لاگت 3 گنا بڑھنے پر سینیٹ کمیٹی کا اظہار تشویش

کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات پر سرمایہ کاروں کو سہولیت فراہم کرنے کے لیے خصوصی اقتصادی زون ایکٹ 2012 میں ضروری ترامیم کے مرحلے کا آغاز کردیا گیا ہے۔

کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ رکن قومی اسمبلی خالد مگسی کی سربراہی میں ایک نگراں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو وفاقی فنڈڈ پی ایس ڈی پی منصوبوں کا جائزہ لیتے ہوئے ضروری مسائل کی نشاندہی کرے گی اور آئندہ آنے والے مسائل کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرے گی، تاکہ بلوچستان کو وفاقی پی ایس ڈی پی اور پبلک پرائیوٹ پارٹرنرشپ جیسے جدید فنانسنگ موڈ کے ذریعے ترقی دی جائے۔

پلاننگ ڈویژن نے کمیٹی کو پی ایس ڈی پی کے 2 ارب روپے اور اس سے کم لاگت کے منصوبوں پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال میں منصوبوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار 155 اور ان کی لاگت 94 کھرب 22 ارب روپے ہے۔

یکم جولائی 2021 تک مذکورہ منصوبوں کے لیے 28 کھرب 86 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں جبکہ 65 کھرب 37 ارب روپے کے اخراجات باقی ہیں، سال 22-2021 میں پی ایس ڈی پی کے لیے 900 ارب مقرر کیے گئے ہیں جس میں 100 ارب کی غیر ملکی امداد بھی شامل ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 10 دسمبر 2021 تک پی ایس ڈی پی فنڈز کا استعمال 190 ارب روپے تھا جو اس مدت کے لیے منظور شدہ فنڈز کے تقریباً 67 فیصد ہے۔

بریفنگ کے دوران اسلام آباد جیل کی موجودہ ترقیاتی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کرنے پر کمیٹی نے بغیر اجازت جیل کی تعمیر اور لاگت پر 300 فیصد اضافے پر سوال کیا۔

اس موقع پر سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے بفر زون میں ایک جیل تعمیر کی جارہی ہے جس کی لاگت میں 3 گنا اضافہ بھی ہوگیا ہے۔

پلاننگ کمیشن نے تصدیق کی کہ اس سے قبل اسلام آباد جیل کی تعمیر کی لاگت 3 ارب 90 کروڑ تھی لیکن نظر ثانی کے بعد 12 ارب کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

ہولی وڈ فلموں کی وجہ سے ’جاوید اقبال‘ کی نمائش آئندہ سال تک ملتوی

16 دسمبر 1971ء کے بعد کا پاکستان

استنبول، تہران اور اسلام آباد کے درمیان مال بردار ٹرین کا آغاز