پاکستان

روس کے یوکرین پر حملے کے بعد 500 پاکستانی انخلا کیلئے رواں دواں

سفارت خانے نے اپنی نیک نامی کیلئے ہم سے ویڈیو پیغام لیا اور بس میں بٹھا دیا جس نے ہمیں سرحد سے 30-40 کلومیٹر دور اتار دیا، خاتون

دفتر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہفتے کو انخلا کے دوسرے روز کے اختتام تک 81 پاکستانیوں کو یوکرین سے باہر منتقل کیا گیا ہے، جن میں سفارت خانے کے عملے کے اہلِ خانہ کے 21 افراد شامل ہیں۔

اس سے قبل جمعہ کی رات تک 35 طلبا کو پولینڈ منتقل کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یوکرین میں مزید 510 پاکستانی شہری پولینڈ، ہنگری اور رومانیہ کی سرحدوں پر جا رہے ہیں جہاں سے انہیں باہر منتقل کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین سے مزید 23 پاکستانی طلبہ کی پولینڈ منتقلی کی تیاری مکمل

دفتر خارجہ اور یوکرین میں موجود پاکستانی سفارتخانے نے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے انخلا کے لیے اپنی کوششوں پر روشنی ڈالی اور سوشل میڈیا پر ریکارڈڈ ویڈیو کلپس اپلوڈ کیے جس میں ہھنسے ہوئے افراد انخلا پر ان کی تعریف کررہے تھے۔

ادھر دفتر خارجہ نے بھی یوکرین میں پاکستان کے سفیر ریٹائرڈ میجر جنرل نول اسرائیل کھوکھر کا ایک ریکارڈڈ آڈیو کلپ صحافیوں کے ساتھ شیئر کیا۔

کلپ میں پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ براہ کرم تمام لوگوں کو اس کام کے بارے میں بتائیں جو سفارت خانہ تمام مشکلات کے باوجود کر رہا ہے، ان تمام چیلنجوں کے پیش نظر آپ اس بات کی تعریف کریں گے کہ ہم ان تمام طلبا کے ساتھ رابطے میں رہنے میں کامیاب رہے ہیں، ہم انہیں نکالنے میں کامیاب رہے ہیں، اور ایک ان میں سے زیادہ تر لوگ پہلے ہی جا چکے ہیں اور باقیوں کو بھی نکالا جا رہا ہے۔

تاہم سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے کچھ پیغامات میں سفارت خانے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

مزید پڑھیں:35 پاکستانی طلبہ کو یوکرین سے پولینڈ منتقل کردیا گیا

ایسی ہی ایک ویڈیو میں ایک نوجوان خاتون کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ 'سفارت خانے نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا ہے، انہوں نے اپنی نیک نامی کو برقرار رکھنے کے لیے ہم سے ایک ویڈیو پیغام لیا اور ہمیں ایک بس میں بٹھادیا جس نے ہمیں سرحد سے 30-40 کلومیٹر دور اتار دیا، یہاں شام ہو گئی ہے اور سرحد جلد ہی بند ہو جائے گی۔'

ایک اور ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ طالب علموں نے پاکستانی سفارت خانے کی مدد کے بغیر اپنے طور پر خارکیو شہر چھوڑ دیا۔

دفتر خارجہ نے سرحد پر منتقل کیے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 79 افراد رومانیہ اور پولینڈ کی سرحدوں پر پہنچ چکے ہیں، 7 افراد کا ایک اور گروپ ہنگری کی سرحد پر تھا۔

اس رپورٹ کے درج ہونے تک کی اپ ڈیٹ کے مطابق 307 افراد پر مشتمل ایک بڑا گروپ پولینڈ کی سرحد کی طرف جا رہا تھا، جبکہ 3 افراد رومانیہ کی سرحد کی جانب گامزن تھے۔

علاوہ ازیں خارکیو شہر سے تقریباً 104 طلبا ٹرین میں لوائیو جا رہے تھے، جب کہ 20 کے ایک گروپ کو کیف سے لوائیو ایک بس میں لے جایا جا رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: روسی افواج کی یوکرین کے دارالحکومت کی جانب پیش قدمی

اس دوران سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے اسلام آباد میں یوکرین کے سفیر کے علاوہ پولینڈ اور رومانیہ کے سفیروں اور ہنگری کے چارج ڈی افیئرز سے بھی ملاقات کی۔

انہوں نے پاکستانیوں کے انخلا میں مدد پر یوکرین کے پڑوسی ممالک کا شکریہ ادا کیا اور آپریشن کی آسانی سے تکمیل کے لیے قریبی تعاون اور رابطہ کاری کی درخواست کی۔

روسی حملے کے بعد یوکرین میں پھنسے سینکڑوں پاکستانی طلبا کے اہل خانہ اپنی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ انہیں وطن واپس لانے میں مدد کی جائے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو روسی حملے کے بعد سے تقریباً 1500 پاکستانی جن میں 500 طلبا بھی شامل ہیں یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں۔

خارکیو نیشنل یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کے طالب علم سید وقار عباس قونصلر مدد کے منتظر طلبا میں شامل ہیں، کراچی میں ان کے اہل خانہ نے کہا کہ وہ ان کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں۔

ان کی والدہ شبانہ بانو عباس نے کہا کہ 'میرا بیٹا خارکیو میں ہے، جس پر بمباری ہو رہی ہے، وہ سرحد کے قریب رہتا ہے اور وہ علاقہ بہت خطرناک ہے، بیٹے کے پاس وہاں سے نکلنے میں مدد دینے کے لیے وسائل نہیں ہیں'۔

طالبعلم کی والدہ کا مزید کہنا تھا کہ اس نے ابھی ہمیں اطلاع دی ہے کہ اس کے علاقے کے قریب ایک اسٹیشن پر بمباری کی گئی ہے، میرا بیٹا اس جگہ سے کیسے نکلے گا؟ ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے پھنسے ہوئے بچوں کی واپسی میں مدد کا مطالبہ کیا۔

وقار عباس کی بہن رباب نے پاکستانی حکام پر غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ وہ دو روز سے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

عالمی بحران پر وزیراعظم کے قوم سے خطاب کا امکان

یوکرینی صدر کا بھارتی وزیراعظم سے سلامتی کونسل میں تعاون کا مطالبہ

افغانستان: کابل یونیورسٹی میں طلبہ کی پابندیوں کے ساتھ واپسی