پاکستان

حکومت سے کہا ہے عمران خان کو مقدمات میں گرفتار کرے، مولانا فضل الرحمٰن

شہباز شریف غیرضروری شرافت دکھا رہے ہیں، حکیم ثنااللہ کو ملاؤ اور اس کو حرکت میں لاؤ، سربراہ پی ڈی ایم

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ عمران خان کے خلاف کئی مقدمات ہیں اس لیے انہیں گرفتار کریں۔

بنوں میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ صرف حکومت کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ اسی سے ہم نے پاکستان کو بچایا ہے، ان کا پاکستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ سامنے آچکا ہے اور اس پر ان کے بیانات آچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم حیران ہیں کہ پنجاب میں ضمنی انتخابات ہوئے اور نتائج آئے، اگر ہم عمران خان کے حق میں آنے والے فیصلے کے خلاف ہوتے تو ہم آج بھی کھڑے ہوجاتے لیکن ہم نے 2018 میں دھاندلی کے خلاف بات کی اور ہمارا مؤقف صحیح تھا۔

سابق وزیراعظم عمران خان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک تباہ کرنے کے ایجنڈے پر آیا تھا اور اس کی حکومت کا خاتمہ پاکستان کے بقا کے لیے لازم تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آج کبھی کاغذ پھرا رہا ہے کہ میرے خلاف سازش ہوئی ہے اور اس کے ارد گرد ایسے پاگل جمع ہیں کہ وہ جو چاہے اس کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں، ایسا بے وقوف طبقہ دنیا میں نہیں دیکھا کہ ایک احمق کے کہنے پر اس کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘مہنگائی، بے روزگاری، بین الاقوامی اداروں سے غلط شرائط پر معاہدوں پر دستخط کرنا، ملک کی معیشت کو بیچنا اور ملک کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا اور اب پھر رہا کہ ملک کو بچا رہا ہوں’۔

'ہم بیرونی سازشوں کا مقابلہ کرنے میدان میں آئے ہیں'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘عمران خان اپنی حدود میں رہو جمعیت والے زندہ ہیں، ہم آپ کے لیے زمین اتنی گرم کریں گے کہ آپ کے یوتھیوں کے نرم تلوے اس زمین پر نہیں رکھے جائیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم بیرونی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آئے ہیں، ہم بیرونی مشنز کے خلاف میدان میں آئے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہی فوج تھی جب آپ کو سپورٹ کر رہی تھی اور ہمیں اس کے کردار پر اعتراض تھا تو آپ کہتے تھے فوج ٹھیک کر رہی ہے، آج جب وہ نیوٹرل ہوگیا ہے تم اس کو جانور کہتے ہو، میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، چاہتا ہوں نیوٹرل رہے’۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ‘الیکشن کمیشن نے 20 سیٹوں پر انتخابات کرایا تو کہا زبردست، نتائج پر خوشی اور اگلے دن جب خبر آئی کہ فارن فنڈنگ کا فیصلے آنے والا تو الیکشن کمشنر مستعفی ہوجائے، ایک دن پہلے شکریہ زبردست ہوگیا اور اگلے مستعفی ہوجائے، تمہاری چوری اور گھپلوں پر ہاتھ پڑ گیا ہے، اس لیے مستعفی ہوجائیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں نے حکومت سے کہا ہے اگر وہ پاکستان کے معزز طبقے اور معززین کو جیلوں میں ٹھونس کر ذلیل و رسوا کرسکتے ہیں تو پاکستان کے بین الاقوامی چور کو ایک ایک مقدمے میں ڈال کر گرفتار کریں گے اور اس طرح ناچنے نہیں دیں گے’۔

'شہباز شریف غیرضروری شرافت دکھا رہے ہیں'

ان کا کہنا تھا کہ ‘شہباز شریف غیرضروری شرافت دکھا رہے ہیں، حکیم ثنا اللہ کو ملاؤ، اس کو حرکت میں لاؤ، بڑے بڑے کیس پڑے ہوئے ہیں، ایک ارب درخت کہاں ہیں، بی آر ٹی، مالم جبہ کیس کہاں ہیں، اس کا حساب کتاب ہوگا’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘فارن فنڈنگ کیس مؤخر کیوں کیا جا رہا ہے، نیب کے خلاف قانون سازی ہوئی، عدالت نے سماعت کے لیے قبول کرلیا، عدالت کا احترام کرتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘عدالت کو عدل و انصاف کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن عدالت کو اتنا ضرور کہوں گا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے، پارلیمنٹ کا حق عدالت ہم سے نہیں چھین سکتی’۔

ان کا کہنا تھا کہ‘اسے (عمران خان کو) حق نہیں ہے کہ یہ قانون اس طرح کیوں بنائے، میں سوچتا ہوں نیب کا ادارہ نہیں ہونا چاہیے، نیب کےسابق قانون کے مطابق پاکستان کا ہر شہری پیدائشی مجرم ہے، جب چاہیے گرفتار کرلو اور الزام لگا دو اور ثابت بھی وہ کرے کہ میں بےگناہ ہوں تو اس کو ہم نے تبدیل کرنا ہے’۔

'قلیل المدت حکومت قلیل المدت فیصلے کرے'

انہوں نے کہا کہ ‘ہم اس وقت ملک میں یک جہتی کی طرف جانا چاہتے ہیں، ہم اقتصادی بحران میں ہیں، چار سال میں جو بحران پیدا کیا گیا اور ہم سے کہا جارہا ہے 4 دن کے اندر اس کو ٹھیک کریں’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘میں ایک رائے رکھتا ہوں کہ قلیل المدت حکومت قلیل المدت فیصلے کرے طویل المدت فیصلے نہ کرے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں نے قیمتیں بڑھانے پر اختلاف کیا تھا اور کہا تھا عوام میں برا تاثر جائے گا لیکن سب ایک رائے رکھتے ہیں تو ہم نے کہا ٹھیک ہے، آئی ایم ایف کی شرائط پر معاہدوں پر ہمیں رکاؤٹ ڈالنی چاہیے تھی، بحران کا ہمیں مقابلہ کرنا چاہیے تھا لیکن سب دوستوں نے کہا کہ دنیا کے ساتھ چلنا ہے’۔

‘قبائل علاقوں میں 2 عشروں سے آپریشنز جاری ہیں’

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں 2 عشروں سے زیادہ عرصہ ہوا ہے کہ مختلف ناموں سے آپریشنز جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے قیام امن کے لیے پوری فوج کو فاٹا کے علاقے میں جھونک دیا اور قوم کو تسلی دیتے رہے کہ ہم آپ کو امن دینا چاہتے ہیں، سوات سے لے کر جنوبی وزیرستان تک لوگو ں نے اپنے ملک کے اندر ہجرت کی،کئی سال اپنے ہی ملک میں کیمپوں میں رہے اور آج بھی قبائلی عوام کراچی سے لے کر چترال تک، پورے پنجاب اور ملک کے مختلف علاقوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور دربدر ہوچکے ہیں'۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ 'یہ قربانیاں کس لیے دی گئیں اور آج پرنالہ وہی کھڑا ہے، ٹارگٹ کلنگ اسی طرح ہو رہی ہے، شاید عوام کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ ضرب عضب آپریشن کےدوران ہمارے 500 سے زیادہ قبائلی ٹارگٹ کلنگ سے شہید ہوئے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آج بھی آپ باجوڑ جائیں، اس سال کے دوران جمعیت علمائے اسلام کے 16 علما شہید کیے گئے، مہمند ایجنسی میں شہید ہو رہے ہیں، ہمیں کون مار رہا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘قیام امن کے دعووں کے باوجود ہم ان حالات سے کیوں دوچار ہیں، امن کے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں اور اس دوران ہمارا خون بھی بہہ رہا ہے’۔

'ہمیں بتایا جائے میرا قاتل کون ہے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘اس حوالے سے ہمیں بتایا جائے میرا قاتل کون ہے، ورنہ میرے قتل کی ذمہ داری ریاستی ادارے قبول کریں، یہ پاکستان ہے، یہ ریاست ہے ہر شہری کے جان اور مال، عزت اور آبرو کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم تو اداروں کو طاقت ور بھی دیکھنا چاہتے ہیں، ہم اداروں کو معزز بھی دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نے ان کے سخت ترین فیصلوں سے اختلاف کرکے اپنی رائے ضرور دی لیکن اگر پارلیمنٹ اور حکومتوں نے اس پر اتفاق کیا تو ہم راستے میں رکاوٹ تو نہیں بنے لیکن نتائج وہی ہیں جو ہماری رائے تھے، جو ہم نے کہا تھا اسی کے مطابق نتائج آرہے ہیں کہ نتیجہ صفر ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘قبائلوں علاقوں میں وفود جاتے ہیں، ایک مسجد دکھا رہے ہیں، 100 سے زائد مسجدیں اور مدرسے شہید کرکے ایک مدرسے کا ماڈل بنا کر پیش کرتے ہیں ہم نے یہ کچھ کیا ہے’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘آج بھی ہمارے دینی مدارس پر ریاستی اداروں کا قبضہ ہے، سول اداروں کو بھی قبضے میں لیا ہوا، ہمارے پاکستان میں اس تعلیمی ادارے کی قدر قیمت نہیں ہے، اس کو دہشت گردی کا مرکز کہا جا رہا ہے اور اسی مدرسے کے علما سے تعاون بھی لیا جا رہا ہے اور اسی کو دہشت گرد بھی کہا جا رہا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے لیے انتہائی پریشان کن صورت حال ہے، ہم نے ہمیشہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے، ہم آئین اور ملک کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ملک اور آئین کے ساتھ کھڑا ہونا بھی ہمارا جرم بن گیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ اپنی سیاست کر رہے ہیں اور اپنی سیاست کے اندر ہمیں ذبح کر رہے ہیں تو اس طرح نہیں چلے گا لہٰذا مجھے اپنا قاتل بتایا جائے، اس کے خلاف کارروائی کی جائے، یہ نہیں کہ قاتل بتا کر مجھے کہا جائے اس کے خلاف بندوق اٹھائیں تو میں پھر بھی بندوق نہیں اٹھاؤں گا، قبائل اور اپنے لوگوں کو پھر بھی کہوں گا بندوق نہیں اٹھانا’۔

'جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘اگر کوئی مجرم ہے تو اس کو پکڑنے والا ملک کے اندر کوئی ہے یا نہیں، ادارے ہیں یا نہیں، یا خود تسلیم کرے کہ ہم اس کہ ذمہ دار ہیں کیونکہ میری جان و مال کی حفاظت کی آئینی ذمہ داری ان کی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ میں اعلان کرتا ہوں پورے صوبے میں جمعے کے اجتماعات میں شمالی وزیرستان میں پیش آنے والے واقعے اور دیگر واقعات پر اتوار کو صوبہ بھر میں احتجاج ہوگا اور مظاہرے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اداروں کو بھی یہ اجازت نہیں دیتے کہ ملک کو مذاق بنائیں اور اپنی سیاست کھیلیں، ہم امن چاہتے ہیں، ہم نے امن میں کردار ادا کیا اور قربانیاں دی ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اپنی وطن کی وفاداری کے لیے سزائیں کاٹی ہیں، ہمارے اوپر قاتلانہ حملے ہوئے اور ہمارے بڑے بڑے رہنما قتل ہوئے ہیں، ہمارے اوپر حملوں میں لوگ شہید ہوئے ہیں کیا یہ خون مقدس نہیں ہے’۔

سندھ ہائیکورٹ کا دعا زہرہ کو لاہور سے کراچی منتقل کرنے کا حکم

شہریار منور اور سجل علی کے بولڈ فوٹوشوٹ پر شائقین نالاں

سابق ڈی جی انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان چیئرمین نیب تعینات