پاکستان

عسکریت پسندوں نے مذاکرات کے بعد گلگت بلتستان کے سینئر وزیر کو رہا کر دیا

گزشتہ روز بلاک کی جانے والی بابو سر کی سڑک بھی کھول دی، عبیداللہ بیگ کو ایک مکان میں 6 گھنٹوں تک تحویل میں رکھا گیا، رپورٹ
|

عسکریت پسندوں نے مذاکرات کے بعد گلگت بلتستان کے سینئر وزیر عبید اللہ بیگ کو رہا کردیا اور گزشتہ روز بلاک کی جانے والی بابو سر کی سڑک کھول دی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیو میں ایک عسکریت پسند کو جرگے کو کہتے سنا جاسکتا ہے کہ جرگہ ان کے ساتھی کی دو سے تین دن میں رہائی کو یقینی بنائے، اگر اس میں ناکامی ہوئے تو انہیں ہم سے کسی رحم کی توقع نہیں کرنا چاہیے۔

خیبرپختونخوا کو گلگت بلتستان سے ملانے والی سڑک پر عسکریت پسندوں نے رکاوٹیں کھڑی کر کے اسے بلاک کردیا تھا جس کے باعث چلاس کے قریب بابوسر روڈ پر متعدد سیاح اور ایک سینئر وزیر پھنس گئے تھے۔

سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی وائس کلپ میں گلگت بلتستان کے وزیرعبیداللہ بیگ نے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد سے گلگت جارہے تھے کہ متعدد عسکریت پسندوں نے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے حکام پر دباؤ ڈالنے کے لیے سڑک بند کردی۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان: عسکریت پسندوں نے بابو سر روڈ بلاک کردی، سیاح اور مسافر پھنس کر رہ گئے

ذرائع کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے انتہائی مطلوب عسکریت پسند کمانڈر حبیب الرحمٰن پر نانگا پربت میں 10 غیر ملکیوں کو قتل کرنے کا الزام ہے، جس کے ساتھیوں نے دیامر میں چلاس کے قریب تَھک گاؤں میں 4 بجے کے قریب سڑک بلاک کی جس کے باعث کئی سیاح اور مسافر دونوں طرف پھنس کر رہ گئے۔

ذرائع نے مزید کہا تھا کہ عسکریت پسند نانگا پربت میں غیر ملکیوں کے بہیمانہ قتل اور دیامر میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دیگر ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

بعد ازاں سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کے سینئر وزیر کا ایک انٹرویو سامنے آیا تھا، ایک آڈیو کلپ میں ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند کمانڈروں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جن کے دو مطالبات ہیں۔

آڈیو کلپ میں مزید کہا گیا تھا کہ عسکریت پسند جیلوں سے اپنے ساتھیوں کی رہائی اور ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے اور خواتین کی کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مذاکرات کرنے والوں میں شامل فیض اللہ فراق نے آج بتایا تھا کہ عسکریت پسندوں نے عبیداللہ بیگ اور ان کے ساتھیوں کو ایک مکان میں 6 گھنٹوں تک تحویل میں رکھا تھا، اور انہیں مذاکرات کے بعد رات کو 3 بجے چھوڑا تھا۔

مزید پڑھیں: ملک میں ستمبر کے دوران دہشت گرد حملوں میں اضافہ ریکارڈ

پولیس نے عسکریت پسند حبیب الرحمٰن کو اس کے دو ساتھیوں سمیت 2013 میں گرفتار کیا تھا، تاہم وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ گلگت بلتستان کی جیل سے 2015 میں بھاگ گیا تھا، اس کا دوسرا ساتھی پنجاب کی جیل میں قید ہے اور فوجی عدالت میں مقدمے کی سماعت کا انتظار کررہا ہے۔

عسکریت پسند حبیب الرحمٰن جیل سے بھاگنے کے بعد رپوش ہو گیا تھا لیکن 7 جولائی 2021 کو اس نے دیامر کے ضلع میں ‘کھلی عدالت’ لگائی اور ایک انٹرویو دیتے ہوئے دیکھا گیا جسے بعد میں سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا۔

روس: کریمیا کے کیرچ پُل پر آئل ٹینکر میں خوفناک آتشزدگی

پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو محمود خان کے خلاف کارروائی سے روک دیا

جوانی میں تضحیک اور تشدد برداشت کیا، عتیقہ اوڈھو