صحت

’جذام‘ کا سبب بننے والے بیکٹیریا سے انسانی جلد اور اعضا کی افزائش کا انکشاف

اس متعدی مرض کا شمارقدیم ترین بیماریوں میں ہوتا ہے، ایک زمانے میں اس مرض میں مبتلا افراد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے قدیم ترین مرض ’جذام‘ کا شکار بنانے والے بیکٹیریا سے انسانی جلد یا اندرونی اعضا کی دوبارہ مرمت یا افزائش ہو سکتی ہے۔

’جذام‘ جسے عام طور پر ’کوڑھ‘ بھی کہا جاتا ہے اس متعدی مرض کا شمار دنیا کی قدیم ترین بیماریوں میں ہوتا ہے اور ایک زمانے میں اس مرض میں مبتلا افراد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ایسے افراد کو سماج سے الگ کردیا جاتا تھا۔

یہ مرض ’مائیکو بیکٹیریم لپرائے‘ (Mycobacterium leprae) نامی بیکٹیریا یا جراثیم کی وجہ سے انسان کو شکار بناتا ہے اور اس میں مبتلا ہونے والے شخص کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے’ اس میں پیپ پڑجاتی ہے اور بعض اوقات انسانی گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے اور مرض سے بدبو بھی آتی رہتی ہے۔

اگرچہ اب ’جذام‘ یا ’کوڑھ‘ کے مرض پر قابو پالیا گیا ہے اور اب یہ مرض انتہائی کم رہ گیا ہے اور اس کا شکار ہونے والے افراد کو اب بہتر سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں، تاہم اس باوجود اس کا شمار خطرناک مرضوں میں ہوتا ہے۔

اب ماہرین نے اس مرض کا شکار بنانے والے جراثیم یا بیکٹیریا پر تجربہ کیا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ بیکٹیریا انسانی جلد کی دوبارہ مرمت اور اعضا کی افزائش کرنے کا اہل ہے۔

طبی جریدے ’سیل رپورٹس میڈیسن‘ میں شائع تحقیق کے مطابق ایڈنبرا یونیورسٹی اور امریکی ماہرین نے مشترکہ طور پر ’مائیکو بیکٹیریم لپرائے‘ (Mycobacterium leprae) نامی بیکٹیریا کو 57 ایرماڈیلو ( وہوں کی ایک خاص قسم) میں داخل کرکے انہیں بیمار کرکے ان کا تجربہ کیا۔

ماہرین نے چوہوں کو بیمار کرنے کے بعد ان کے جسم اور اندرونی اعضا کا جائزہ لیا اور پھر ان کا موزانہ صحت مند اور کچھ عمر رسیدہ اور عام بیمار چوہوں اور ان کے اندرونی اعضا سے کیا۔

موازنے سے معلوم ہوا کہ جن چوہوں میں ’جذام‘ کا وائرس داخل کیا گیا تھا ان کے جگر کا سائز دوگنا ہوگیا تھا جب کہ نظام ہاضمہ اور اندرونی جسم کو خون کی ترسیل کرنے والے اعضا کا سائز بھی بڑھ چکا تھا۔

ماہرین نے بڑھ جانے والے اعضا کے ٹیسٹس کیے اور دیکھا کہ اعضا میں کینسر کے غدود تو نہیں پیدا ہوئے۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ بڑھے ہوئے جگر سمیت دیگر اعضا بلکل صحت مند تھے اور ان میں کسی طرح کی کوئی خرابی یا بیماری نہیں تھی۔

ماہرین نے بتایا کہ ممکنہ طور پر ’مائیکو بیکٹیریم لپرائے‘ (Mycobacterium leprae) نامی بیکٹیریا ان اسٹیم سیلز پر قبضہ کرکے اعضا کو افزائش کی خوراک فراہم کرتا ہے جو اسٹیم سیلز اعضا کی نشو و نما کا کام کرتے ہیں۔

ماہرین نے واضح کیا کہ مذکورہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے مگر اس پر مزید تحقیق کرکے حوصلہ کن نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ ’مائیکو بیکٹیریم لپرائے‘ (Mycobacterium leprae) نامی بیکٹیریا سے مستقبل میں جگر سمیت دیگر اعضا کے ناکارہ یا فیل ہوجانے پر مدد حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ جراثیم ٹرانسپلانٹ کا متبادل ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ: کوڑھ کے مریضوں کیلئے روشنی کی کرن

جذام کے مریضوں کا علاج کرنے والی 'پاکستانی مدر ٹریسا‘ چل بسیں

‘پاکستان جذام کے مرض پر قابو پانے کے بیشتر اہداف حاصل کرنے میں کامیاب‘