پاکستان

معاشی تنزلی کی وجوہات جاننے کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ

معاشی زوال کا آغاز 2017 میں نواز شریف کی برطرفی سے ہوا، 2018 کے انتخابات کے ذریعے ایسا نظام نافذ کیا گیا جو تباہی کا باعث بنا، سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹ میں ملک کے معاشی زوال پر تشویش کی بازگشت سنائی دی جب ایک سینیٹر نے گزشتہ 10 برسوں میں معاشی تنزلی کی وجوہات جاننے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے 2013 سے معاشی تنزلی کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے سینیٹرز پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی تجویز دی۔

ایوان سے خطاب کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے الزام تراشی میں ملوث ہونے پر سیاسی جماعتوں کی سرزنش کی اور سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر خوداحتسابی کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ فریقین ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن ملک کو درپیش مسائل کی اصل وجوہات کا جائزہ لینے کو تیار نہیں۔

عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ سابق آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 2 بار آئین معطل کیا لیکن ایک دن بھی جیل نہیں گئے۔

انہوں نے پرویز مشرف کے محلوں کی قیمتوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’ہم سیاستدان ایک دوسرے کی کرپشن کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں لیکن کوئی نہیں پوچھتا کہ مشرف نے اپنے اکاؤنٹس میں کتنے ملین ڈالرز بھرے‘۔

بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے اپنی رائے دی کہا کہ معاشی زوال کا آغاز 2017 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی برطرفی سے ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت جی ڈی پی کی شرح نمو اچھی تھی جس میں افراط زر کی شرح تقریباً 3 فیصد تھی اور روپیہ مستحکم تھا لیکن پھر نواز شریف کو ہٹا دیا گیا اور 2018 کے انتخابات کے ذریعے ایک ایسا نظام نافذ کیا گیا جو تباہی کا باعث بنا‘۔

انہوں نے کوڈ آف کریمنل پروسیجر (ترمیمی) بل 2022 کا بھی حوالہ دیا جسے انہوں نے ایوان میں پیش کیا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ بل 7 ماہ قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد غائب ہو گیا‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ میری توہین نہیں بلکہ اس ایوان اور پوری پارلیمنٹ کی توہین ہے، بل میں آئین کے مطابق ضلعی انتظامیہ کے عدالتی اختیارات کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔

سینیٹر عرفان صدیقی کے اصرار پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سیکریٹری سینیٹ کو بل کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کے مبینہ ریمارکس کی مذمت

جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے گوادر میں حق دو تحریک کی قیادت میں ہونے والے حالیہ احتجاج کے بارے میں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کے مبینہ ریمارکس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج ہر کسی کا حق ہے، مقامی لوگوں کے مطالبات غیر آئینی یا غیر قانونی نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا کی کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے گوادر میں ایک تقریب کے دوران خبردار کیا تھا کہ جو بھی مستقبل میں گوادر میں احتجاج کرے گا اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ ٰ نے کہا کہ وہ ایک ایسے افسر کی جانب سے ان ریمارکس پر حیران ہیں جوکہ بلوچستان میں سیکیورٹی سیٹ اپ کا سربراہ ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا گوادر کوئی مقبوضہ علاقہ ہے؟، فوجی افسر کو اس طرح کی بات کرنے اور لوگوں کو دھمکیاں دینے کا کوئی حق نہیں ہے، ہم ایسے رویے اور دھمکیوں کو مسترد کرتے ہیں‘۔

ان ریمارکس پر بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سینیٹر دانش کمار نے اعتراض کیا اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایوان میں سوشل میڈیا کی غیر تصدیق شدہ رپورٹس کی بنیاد پر بحث ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بھی ایک روز قبل اس غیر مصدقہ بیان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ پاک فوج کو غیر ضروری طور پر ایسے معاملات میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے جبکہ ادارہ کہہ چکا ہے کہ وہ غیر سیاسی رہنا چاہتا ہے۔

قبل ازیں سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے مولانا ہدایت الرحمٰن پر ذاتی مفادات کے لیے گوادر کے لوگوں کو استعمال کرنے کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے کہا کہ گوادر عالمی اہمیت کا حامل ہے اور سربراہ ’حق دو تحریک‘ احتجاج کے نام پر حکام کو بلیک میل کر رہے ہیں۔

نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے نام پر تعطل، متفقہ امیدوار کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی استدعا

بوڑھے جانوروں کو جوان کرنے کا تجربہ کامیاب، بڑھاپا ماضی بننے کے قریب

چینی کی معاشی شرح نمو دہائیوں کی کم ترین سطح پر