دنیا

افغان طالبان، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی حمایت ترک نہیں کریں گے، امریکی تھنک ٹینک

پاکستان میں اقتصادی بحران اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران پاکستانی طالبان دوبارہ خطرہ بن کر سامنے آئے ہیں، رپورٹ

ایک امریکی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ افغانستان کے حکمران طالبان پاکستان میں عسکریت پسندوں کی حمایت ترک نہیں کریں گے کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ معاشی مشکلات اسلام آباد کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کسی بڑے آپریشن سے روک رہی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) کی جانب سے واشنگٹن میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ’پاکستان میں اقتصادی بحران اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران پاکستانی طالبان دوبارہ تیزی سے خطرہ بن کر سامنے آئے ہیں‘۔

رپورٹ میں کابل کی جانب سے اسلام آباد کی پالیسیوں پر حالیہ تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’یہ غیر سفارتی بیان بازی پاکستان کی جانب سے دباؤ بڑھانے کے باوجود طالبان کے ٹی ٹی پی کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کو اجاگر کرتی ہے‘۔

یو ایس آئی پی نے کہا کہ طالبان سے کالعدم ٹی ٹی پی کی حمایت کے بارے میں پوچھے گئے سوالات پر جوابی الزام لگانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے حمایت ترک نہیں کی۔

یو ایس آئی پی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس طرح کی بیان بازیوں کے اشارے اقوامِ متحدہ کے حکام اور دیگر مبصرین کی ٹی ٹی پی کے افراد کے آزادانہ گھومنے اور افغان شہروں میں کاروبار کرنے سے متعلق رپورٹس سے ملتے ہیں۔

قندھار تک رسائی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے امیر اور ان کے قریبی مشیر ’نظریاتی بنیادوں پر ٹی ٹی پی کی حمایت کرنا ترک نہیں کریں گے‘۔

اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی ردِ عمل کو ایک اور چیز متاثر کررہی ہے اور وہ ملک کی زوال کا شکار معاشی صورتحال ہے۔

یو ایس پی نے خبردار کیا کہ ’معاشی حالات نے پاکستان کے عسکری آپشنز کو محدود کردیا ہے، پاکستان، ملک کے اندر چھاپہ مار کارروائی اور دفاعی کارروائیاں کرسکتا ہے لیکن اس کے پاس بھرپور اور مسلسل جاری رکھنے والی مہم کے لیے وسائل نہیں ہیں‘۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ’پاکستان نے ایک مرتبہ پھر سرحد پار فضائی حملوں کے خیال پر غور کیا تھا جو اس نے آخری بار اپریل 2022 میں کیے تھے اور اسے کسی کارروائی کے لیے دباؤ کا بھی سامنا ہے کہ لیکن اس کے لیے ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتا ہے‘۔

یہ دباؤ پاکستان کےسیاسی گروپس کا ہے کہ جو ’دہشت گردی کے دوبارہ ابھرنے کو فوج کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی واپسی کو روکنے اور غیر ملکی امداد حاصل کرنے کی سازش‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

تاہم رپورٹ میں کہا گیا کہ معاشی دباؤ اور تنازعات بڑھنے کا خطرہ خاص کر ٹی ٹی پی میں طالبان جنگجووں کی شمولیت کی اطلاعات نے پاکستان کو اس طرح کی سرحد پار کارروائیوں کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا کردیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی بڑھتی ہوئی پر تشدد کارروائیاں اس کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور مادی طاقت کی وجہ سے ہے جس کا اظہار سیاسی ہم آہنفی، تربیت یافتہ جنگجووں، خود کش حملہ آوروں، ہتھیاروں اور آلار کی کی تعداد بڑھنے سے ہوتا ہے۔

امریکی ادارے نے دعویٰ کیا کہ ’افغان طالبان ٹی ٹی پی کی بہت زیادہ حمایت کرتے ہیں اور اسے محفوظ پناہ گاہ بھی فراہم کرتے ہیں، ٹی ٹی پی کو افغانستان میں بہت حمایت حاصل ہے جہاں طالبان اور غیر طالبان پاکستان کے شدید ناپسندیدگی کے جذبے کے سبب ٹی ٹی پی کے پیچھے ہیں۔

توہین الیکشن کمیشن: اسد عمر کا ’معذرت خواہانہ جواب‘ واپس لینے کا فیصلہ

منیبہ علی ٹی ٹوئنٹی سنچری بنانے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئیں

انتخابات کی تاریخ پر ڈیڈلاک، الیکشن کمیشن کا عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ