پاکستان

’پاکستان اور بھارت کے سابق سربراہان امن معاہدے پر دستخط کے نزدیک تھے‘، سابق بھارتی سفیر کی کتاب میں انکشاف

جنرل (ر) پرویز مشرف اور نواز شریف نے پاکستان جبکہ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ نے بھارت کی جانب سے بیک چینل مذاکرات کی حمایت کی۔

بھارتی صحافی کرن تھاپر نے سابق بھارتی سفیر کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سابق سربراہان اقتدار سے محروم ہونے سے قبل دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سابق سفیر ستیندر لامبا نے اپنی کتاب ’پرسوٹ آف پیس‘ میں کہا کہ یو پی اے حکومت کی دوسری مدت اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی 10 سالہ مدت کے اختتام تک اس امن معاہدے کے مسودے کو منظور کر لیا گیا تھا اور دستخط کے لیے تیار تھا

ستیندر لامبا کی یہ کتاب بعد از مرگ شائع کی گئی ہے جن کا گزشتہ برس جون میں انتقال ہو چکا ہے۔

کتاب کے مطابق ’مئی 2003 سے مارچ 2014 تک 36 بیک چینل اجلاس منعقد ہوئے، اس مدت کے دوران دونوں ممالک کی جانب سے دو، دو لیڈران نے اپنا کردار ادا کیا، جنرل (ر) پرویز مشرف اور نواز شریف نے پاکستان کی جانب سے بیک چینل مذاکرات کی حمایت کی جبکہ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ نے بھارت کی جانب سے اس پر زور دیا۔

کتاب میں کہا گیا کہ امن معاہدے پر زیادہ تر پیش رفت جنرل (ر) مشرف کے دور میں ہوچکی تھی، ان کے اقتدار کھونے کے بعد کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی لیکن سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اسے تیزی سے آگے بڑھایا، بدقسمتی سےاس وقت تب تک بھارت میں توجہ 2014 کے عام انتخابات کی جانب مبذول ہوچکی تھی۔

کرن تھاپر کے مطابق 2 لمحے ایسے تھے جب معاہدہ ہو سکتا تھا، پہلا موقع 2007 میں آیا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت جنرل (ر) مشرف کوملک میں ’اندرونی مسائل‘ کا سامنا تھا، دوسرا موقع نواز شریف کے دور حکومت میں آیا تھا تاہم اس وقت انتخابات نے بھارت کی توجہ ہٹا دی۔

لیکن مئی 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی امیدیں ختم نہیں ہوئیں، کتاب میں مصنف کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ’بیک چینل مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنے کا ارادہ نظر آتا ہے، امن معاہدے کے موضوع پر فائل کا جائزہ لیا گیا ہے، مجھے ایک بار بتایا گیا کہ کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے، اس حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ایک معزز سفارت کار کو خصوصی سفیر مقرر کرنے پر غور کیا جا رہا تھا، مجھے ان سے ملنے کے لیے کہا گیا‘، تاہم مصنف کے دعوے کے برعکس بھارت کی جانب سے تاحال ایسا کوئی سفیر مقرر نہیں کیا گیا ہے۔

مودی حکومت نے اپریل 2017 میں ایک بار پھر کوشش کی، مصنف نے دعویٰ کیا کہ ’وزیراعظم آفس کا ایک سینیئر افسر مجھے میرے گھر ملنے آیا، انہوں نے کہا کہ نریندرمودی چاہتے ہیں کہ میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے ملنے پاکستان جاؤں‘۔

کرن تھاپر نے کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’اس کے بعد ستیندر لامبا مذکرات کے نکات کی تفصیلات کا انتظار کر رہے تھے اور ان سے ان کے سفری دستاویزات دینے کو کہا گیا تھا تاکہ وہ پاکستان کا سفر کر سکیں، اس دوران ایک عجیب بات ہوئی، ایک خبر سامنے آئی کہ ایک معروف بھارتی تاجر جو کہ ایک سفیر تھا، اپنے ذاتی طیارے میں وزیر اعظم نواز شریف سے ملنے چلا گیا تھا، لہٰذا ان حالات میں 2 افراد کا ایک ہی مقصد کے لیے وزیر اعظم کی نمائندگی کرنا مناسب نہیں تھا‘۔

صحافی کرن تھاپر نے کتاب کے جن اقتباسات کا ذکر کیا ان کے مطابق سابق پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا خیال تھا کہ یہ تاجر غالباً سجن جندال تھے، ستیندر لامبا لکھتے ہیں کہ یہ میری اس موضوع پر آخری گفتگو تھی’۔

کتاب میں دی گئی تفصیلات اس خیال کی تصدیق کرتی ہیں کہ یہ معاہدہ سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے دور میں نتیجہ خیز مرحلے تک پہنچنے کے قریب تھا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات کل سے دوبارہ شروع ہوں گے

ڈراموں میں خواتین پر تشدد کرنے اور انہیں مجبور دکھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، شائستہ لودھی

غریب ممالک سے متعصبانہ رویے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل امیر ممالک پر برس پڑے