پاکستان

قومی اسمبلی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابی اخراجات کی فراہمی کیلئے تحریک مسترد کردی

فنانس کمیٹی نے بھی کثرت رائے سے بل کو مسترد کردیا تھا جس میں اراکین نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ایک روپیہ بھی جاری نہ کیا جائے۔
|

قومی اسمبلی میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابی اخراجات کے لیے 21 ارب کی فراہمی کے لیے پیش کی گئی تحریک کثرت رائے سے مسترد کردی گئی۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیرِ صدارت ہوا جس میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے تحریک پیش کی جس کو ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کردیا۔

قبل ازیں اسی بل کو فنانس کمیٹی میں بھی پیش کیا گیا تھا جس نے کثرت رائے سے بل کو مسترد کردیا تھا جس میں اراکین نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ایک روپیہ بھی جاری نہ کیا جائے کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام میں ہونے کی وجہ سے معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں۔

دوران اجلاس فاٹا اور وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر نے دہشت گردی اور فوجی آپریشن پر سوالا اٹھائے جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وزیرستان اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی کے خدشات کی پوری طرح شنوائی ہو گی اور کل ان کیمرہ اجلاس میں بریفنگ دی جائے گی۔

قومی اسمبلی میں وزیرستان اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے ارکان کے نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ ان کے خدشات پر مبنی ان کی بات کی پوری طرح شنوائی ہو گی اور ان کو پوری طرح مطمئن کیا جائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پوری قومی اسمبلی کو جمعہ کے دن ان کیمرہ بریفنگ دی جائے گی، ارکان چاہیں گے تو وہ سوالات بھی کر سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ قطعاً کوئی ایسی بات نہیں ہو گی جس سے صورتحال خراب ہو بلکہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے بھرپور کوشش کی جائے گی۔

ادھر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ نے متعلقہ باتیں کی ہیں لیکن میں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ یہ مسئلہ تقریباً تین دہائیوں کا ہے جو ہماری ریاست کی تمام تر غلط پالیسیوں کی بنیاد آمرانہ دور میں رکھی گئیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پہلی افغان جنگ جنرل ضیا کے دور میں ہوئی جبکہ دوسری جنگ 9/11 کے بعد جنرل (ر) مشرف نے شروع کی اور یہ سارا ملبہ اس وقت کا اکٹھا ہوا پڑا ہے۔

انہوں نے محسن داوڑ اور علی وزیر کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بات سو فیصد درست ہے اور ان علاقوں میں جو لوگ عذاب میں ہیں وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں، ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں تھا، ریاست کی پالیسی تھی جس کے فیصلے اسلام آباد میں ہوئے ہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ جنرل ضیا کا بھی فرد واحد کا فیصلہ تھا جبکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا بھی فرد واحد کا فیصلہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ فوج، پولیس، رینجرز اور ایف سی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ہزاروں عام شہری شہید ہوئے ہیں تو ان کا حساب کون دے گا، یہ (ارکان) صحی حساب مانگ رہے ہیں اور اب جو المیہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہاں سے لوگوں کو لاکر یہاں بسایا گیا ہے جن کو دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں آتا کیونکہ انہوں نے آنکھیں ہی دہشت گردی میں کھولی ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ جب سے وہ لوگ یہاں آئے ہیں پاکستان میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے، ان ذمہ دار افراد کا احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کو یہاں لانا ہے اور ان لوگوں کو امن والی آبادی میں بسایا گیا جس کی وجہ سے امن تباہ ہوگیا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ان لوگوں میں سے کچھ کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہے اور کچھ لوگ زمان پارک میں بیٹھے ہوئے ہیں تو یہ لوگ صرف کچے میں نہیں بلکہ زمان پارک میں بھی موجود ہیں جو عمران خان کی بھی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

اجلاس کی ابتدا میں علی وزیر نے کہا کہ جب میں سینٹرل جیل سے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹ دینے آیا تو میں نے شہباز شریف کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ ہمیں زیادہ کچھ نہیں چاہیے صرف موجودہ پالیسی کو تبدیل کیا جائے۔

علی وزیر نے کہا کہ شہباز شریف نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس پر ہم بات کریں گے لیکن اب پھر مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث آپریشن کی اجازت دی گئی ہے لیکن جب افغانستان میں وفد بیھج کر معاہدے کروائے جارہے تھے تو پارلیمان اور قوم سمیت جی ایچھ کیو کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان بیوروکریٹس اور جرنیلوں کو سزا دی جائے جو ان (دہشت گردوں) کو واپس لائے ہیں جو کہ اب وزیرستان سے زیادہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں آچکے ہیں اور دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ ان سے بھرا پڑا ہے۔

اس موقع پر محسن داوڑ نے کہا کہ کل ایک پریس ریلیز آئی ہے کہ پھر سے آپریشن کیا جا رہا ہے لیکن قومی اسمبلی میں پہلی تقریر سے لے کر آج تک 80 فیصد باتیں امن و امان اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئئی صورتحال پر ہیں لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔

بعدازاں وزیر قانون نے کہا کہ تحریک مسترد کرنے کے بعد 21ارب روپے سے متعلق بل کی شق وار منظوری یا مسترد کرنے کے لیے پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔

تحریک مستعد ہونے کے بعد بل کی منظوری کی اجازت نہ ملنے کے باعث الیکشن اخراجات کا بل بھی مسترد کردیا گیا۔

ادھر اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس طلب کر لیا۔ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت 14 اپریل کو سہ پہر 2:30 بجے قومی اسمبلی ہال میں ہو گا۔

قومی سلامتی اجلاس میں تمام وفاقی وزرا، وفاقی مشیران اور ممبران قومی اسمبلی کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

اجلاس میں عسکری حکام کی جانب سے قومی سلامتی کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی جائے گی جبکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے نوٹس جاری کردیے گئے۔

اجلاس میں وفاقی سیکرٹریز داخلہ، خارجہ، فنانس، دفاع اور اطلاعات نشریات کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے جبکہ چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو خصوصی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

اجلاس میں چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔

پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد معیشت کی بحالی کیلئے ’قابل عمل‘ حکمت عملی تیار کر رہی ہے، عمران خان

بھارت: فوجی اڈے پر 4 اہلکاروں کے قتل کے بعد ایک اور سپاہی ہلاک

بل قانون بننے سے قبل ’سلیکٹیو بینچ‘ بنا کرسماعت کیلئے مقرر کیا گیا، وزیرقانون