دنیا

قطر، بحرین کے وفود کی سعودیہ میں ملاقات، تنازع ختم کرکے تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ

دونوں فریقین نے خلیجی تعاون کونسل کے چارٹر کے تحت خلیجی اتحاد اور سالمیت کو مضبوط کرنے کے پیش نظر ملاقات کی، رپورٹ

قطر اور بحرین کے وفود نے برسوں پرانا تنازع ختم کرکے سفارتی تعلقات بحال کرنے کے پیش نظر سعودی عرب میں ملاقات کی ہے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کی وزارت خارجہ نے کہا کہ قطر اور بحرین کے وفود سعودی عرب میں خلیجی تعاون کونسل کے ہیڈکوارٹر میں ملے ہیں۔

قطری وزارت خارجہ نے اپنے بیان کہا کہ دونوں فریقین نے تعاون کونسل کے چارٹر کے تحت خلیجی اتحاد اور سالمیت کو مضبوط کرنے کے پیش نظر ملاقات کی۔

رپورٹ کے مطابق قطر کی وزارت خارجہ کے سکریٹری جنرل احمد بن حسن الحمادی نے 2017 سے جاری تنازعہ کو حل کرنے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بحرین کی وزارت خارجہ کے انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور شیخ عبداللہ بن احمد الخلیفہ سے ملاقات کی۔

اسی سال بحرین نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سے مل کر قطر پر سفارتی پابندیاں عائد کردی تھیں اور الزام عائد کیا تھا کہ وہ ایران کے بہت قریب اور سخت گیر گروپوں کی معاونت کر رہا ہے، تاہم قطر نے ہمیشہ ایسے الزامات کی تردید کی ہے۔

رواں برس جنوری میں بحرین کے ولی عہد اور قطر کے امیر نے اختلافات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے فون پر بات چیت کی تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قریب ہوئے۔

العربیہ اردو کے مطابق بحرین اور قطر نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور 1961 کے سفارتی تعلقات سے متعلق ویانا معاہدے کی دفعات کے مطابق اپنے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

دونوں فریقوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ قدم خلیج تعاون کونسل کے آئین کے مقاصد کے مطابق، اور ریاستوں کے درمیان مساوات کے اصولوں کے احترام کے تحت دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور خلیجی ملکوں کے اتحاد کو بڑھانے کی باہمی خواہش سے نکلا ہے۔

اس اہم اقدام کے تحت قومی خودمختاری اور آزادی، علاقائی سالمیت اور اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔

یہ بات ریاض میں خلیج تعاون کونسل کے جنرل سیکرٹریٹ کے ہیڈ کوارٹر میں ’بحرین- قطر فالو اپ کمیٹی‘ کے دوسرے اجلاس کے دوران سامنے آئی۔ کمیٹی نے مشترکہ قانونی کمیٹی اور مشترکہ سلامتی کمیٹی دونوں کے پہلے اجلاس کے نتائج کا جائزہ لیا۔

اپنے اپنے ملک کے وفد کی سربراہی بحرین کی وزارت خارجہ کے سیاسی امور کے انڈر سیکرٹری الشيخ عبد الله بن أحمد آل خليفہ اور قطری وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر احمد الحمادی کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ چار عرب ممالک نے قطری طیاروں اور بحری جہازوں پر اپنی فضائی حدود اور پانی استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور تجارتی روابط منقطع کر دیے تھے۔

تاہم 2021 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر نے تعلقات دوبارہ بحال کیے تھے، حالانکہ متحدہ عرب امارات اور قطر نے ابھی تک اپنے اپنے سفارت خانے نہیں کھولے ہیں۔

واضح رہے کہ بحرین کا قطر کے ساتھ تنازعہ ایران کے ساتھ تعلقات اور سمندری سرحد پر مرکوز رہا ہے۔

خیال رہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں نمایاں تبدیلیاں نظر آرہی ہیں جہاں بالخصوص عراق، لبنان، یمن، شام اور سعودی عرب تنازعات میں الجھے ہوئے تھے۔

قبل ازیں شامی وزیر خارجہ فیصل المقداد سعودی عرب کے سرکاری دورے پر جدہ پہنچ گئے ہیں جو کہ شام میں 2011 کی خانہ جنگی کے بعد ان کا پہلا دورہ تھا۔

العربیہ اردو کے مطابق 2011 کی خانہ جنگی کے بعد شامی وزیر خارجہ پہلی بار سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچے تھے۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے انھیں دورے کی دعوت دی تھی۔

سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ ولید بن عبدالکریم الخریجی نے جدہ کے شاہ عبدالعزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے پر شامی وزیر خارجہ ڈاکٹر فیصل المقداد کا پُرتپاک استقبال کیا تھا۔

شامی وزیر خارجہ سعودی ہم منصب سے شام کے بحران کے سیاسی حل تک پہنچنے کی کوششوں پر بات چیت کی تاکہ شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوسکے اور شام میں متاثرہ علاقوں میں انسانی امداد کو یقینی بنایا جاسکے۔

قبل ازیں سعودی عرب کی زیرقیادت فوجی اتحاد نے امن کی جانب پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے یمن کے جنوبی بندرگاہوں کی طرف جانے والی درآمدات پر آٹھ سال پرانی پابندیاں ختم کردیں تھیں۔

علاوہ ازیں سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ طے پایا گیا جس کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے چین میں ملاقات کی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارت خانے اور قونصلیٹ کھولنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو ویزے جاری کرنے کی سہولیات پر بھی اتفاق کیا تھا۔

تفتیش کار خفیہ دستاویزات لیک کرنے والے ذرائع کے قریب ہیں، امریکی صدر

پی ایس ایل کے نشریاتی حقوق غیرقانونی طور پر اے آر وائی کو دینے کے خلاف کارروائی کا حکم

عائشہ عمر کی ہراساں کرنے والے شخص سے متعلق وضاحت