پاکستان

ساجد سدپارہ دنیا کی 10ویں بلند ترین چوٹی بغیر آکسیجن سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے

نیپال کی اناپورنا چوٹی تکنیکی دشواریوں اور اموات کی بلند شرح کی وجہ سے مشہور ہے جسے سر کرنا تجربہ کار کوہ پیماؤں کے لیے بھی مشکل سمجھا جاتا ہے۔
|

مرحوم کوہ پیما علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نیپال میں واقع دنیا کی 10ویں بلند ترین چوٹی اناپورنا آکسیجن کے بغیر سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔

سیون سمٹ ٹریکس کے مطابق ساجد علی سدپارہ نے جمعے کو اپنی مہم کا آغاز کیا تھا اور آج 8 ہزار 91 میٹر بلند اناپورنا چوٹی سر کرنے میں کامیابی حاصل کی، انہوں نے چوٹی سے واپس نیچے کی جانب اترنا شروع کر دیا ہے اور رات قیام کے لیے نچلے کیمپوں تک پہنچنے کا امکان ہے۔

13 مارچ کوہ پیما ساجد علی سدپارہ بغیر کسی اضافی آکسیجن کے دنیا کے تین بلند ترین پہاڑ سر کرنے کے مشن پر نیپال پہنچے تھے، اُن کا کانگچنجنگا (8 ہزار 586 میٹر)، دھولاگیری (8 ہزار 167 میٹر) اور مکالو (8 ہزار 481 میٹر) چوٹیاں سر کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔

نیپال روانگی سے قبل ’ڈان نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اُن کا مشن 3 ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔

ساجد سدپارہ کا ہدف آکسیجن کے بغیر دنیا میں موجود 8 ہزار سے زیادہ بلند تمام 14 چوٹیاں سر کرنا ہے تاکہ وہ اپنے مرحوم والد کا خواب پورا کرسکیں، وہ پاکستان میں 8 ہزار 611 میٹر بلند کے-ٹو، 8 ہزار 80 میٹر بلند گیشربروم-ون، 8 ہزار 35 میٹر بلند گیشربروم-ٹو اور نیپال میں 8 ہزار 163 میٹر بلند شہر مناسلو چوٹی بھی بغیر آکسیجن کے سر کرچکے ہیں۔

یاد رہے کہ فروری 2021 میں دنیا کی دوسری بلند ترین اور پاکستان کی سب سے بلند ترین چوٹی کے-ٹو (8 ہزار 611 میٹر بلند) سر کرنے کی کوشش کے دوران محمد علی سدہ پارہ اور ان کے 2 ٖغیرملکی ساتھی جان اسنوری اور چلی کے جوآن پابلو موہر نے 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب کو بیس کیمپ تھری سے چوٹی تک پہنچنے کا سفر شروع کیا تھا۔

موسم سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی مہم میں شامل تینوں کوہ پیماؤں کا 5 فروری کی کی رات کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور اس کے بعد وہ لاپتا ہوگئے۔

محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ بھی ان کی ٹیم کا حصہ تھے لیکن وہ ’بوٹل نیک‘ ( کے ٹو کا خطرناک ترین مقام جہاں کئی جان لیوا حادثے رونما ہوچکے ہیں) تک لاپتا ہونے والے تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کی وجہ سے وہ مہم ادھوری چھوڑ کر بیس کیمپ 3 پر واپس آگئے تھے۔

کئی دن تک تلاش جاری رکھنے کے بعد حکومت نے 18 فروری کو ان کی موت کی تصدیق کی تھی اور ان کی تلاش کا کام بھی روک دیا گیا تھا، جون 2021 میں ساجد علی سدرہ نے والد سمیت دیگر لاپتا کوہ پیماؤں کی دوبارہ تلاش کے لیے مہم کا آغاز کیا تھا۔

مئی میں محمد علی سدپارہ، ان کے ساتھی آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جوان پابلو موہر کی لاشیں 5 ماہ بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے خطرناک ترین مقام سے 400 میٹر دور مل گئی تھیں۔

ساجد سدپارہ نے اپنے والد اور دیگر لاپتا کوہ پیماؤں کی لاشوں کی تلاش اپنی زندگی کا سب سے مشکل اور غیر معمولی مشن قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے کے-ٹو کی چوٹی سر کرنا خود ایک خطرناک مہم جوئی تھی اور 8 ہزار میٹر اوپر اپنے والد کی تدفین دل دہلا دینے والا تجربہ تھا، لاشوں کو واپس بیس کیمپ تک لے جانا ناممکن تھا اس لیے ہم نے انہیں پہاڑ پر دفن کرنے کا فیصلہ کیا’۔

سیاست دانوں اور کوہ پیماؤں نے ساجد علی سدپارہ کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دی، الپائن کلب آف پاکستان کی جانب سے کرار حیدری نے ایک بیان میں کہا کہ ’ساجد علی سدپارہ کو 8 ہزار 91 میٹر بلند اناپورنا چوٹی کامیابی سے سر کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں‘۔

واضح رہے کہ اناپورنا چوٹی تکنیکی دشواریوں اور اموات کی بلند شرح کی وجہ سے مشہور ہے، جسے سر کرنا تجربہ کار کوہ پیماؤں کے لیے بھی ایک مشکل چیلنج سمجھا جاتا ہے۔

دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قوم اور حکومت کو مشترکہ روش اپنانے کی ضرورت ہے، پاک فوج

شرمین عبید چنائے کو ’جنوبی ایشیائی‘ کہنے پر عدنان صدیقی کی پریانکا چوپڑا پر تنقید

جاپانی وزیرِاعظم کی تقریر کے دوران دھماکا، محفوظ مقام پر منتقل