پاکستان

عدالت عظمیٰ کا 10سال سے آڈٹ نہ ہونے کی رپورٹس حقائق کے منافی ہیں، سپریم کورٹ کی وضاحت

سپریم کورٹ آف پاکستان کا آڈٹ 30 جون 2021 تک مکمل کیا گیا تھا اور مالی سال 22-2021 کے آڈٹ کا عمل جاری ہے، عدالت عظمیٰ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالت عظمیٰ کا گزشتہ دس سال سے آڈٹ نہ ہونے کی رپورٹس کو گمراہ کن اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے رکھی گئی غلط معلومات پر مبنی ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ 19 اپریل 2023 کو پرنٹ میڈیا میں شائع رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ سپریم کورٹ کا گزشتہ 10سالوں سے آڈٹ نہیں کیا گیا اور اس سلسلے میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کر لیا تاہم یہ رپورٹ درست نہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ریکارڈ کو درستی کے لیے یہ بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا آڈٹ 30 جون 2021 تک مکمل کیا گیا تھا اور مالی سال 22-2021 کے آڈٹ کا عمل جاری ہے جس کی تصدیق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر سے کی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ ایسی رپورٹس حقائق کے منافی، غلط، گمراہ کن اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے رکھی گئی غلط معلومات پر مبنی ہیں۔

واضح رہے کہ ڈان اخبار میں شائع رپورٹ میں کہا تھا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے گزشتہ ایک دہائی سے عدالت عظمیٰ کا آڈٹ نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کر لیا۔

رپورٹ کے مطابق چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے حیرانگی کا اظہار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آڈیٹر جنرل پاکستان کو گزشتہ 10 برسوں سے اپنے اکاؤنٹس تک رسائی سے کیوں انکار کیا جارہا ہے۔

نور عالم خان نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو عیدالفطر کی تعطیلات کے بعد طلب کر لیا جہاں اس سے قبل گزشتہ ماہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کا ریکارڈ بھی طلب کیا تھا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چیئرمین کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نورالامین مینگل سے ججوں، جرنیلوں، وزرائے اعظم، ارکان پارلیمنٹ، کابینہ کے ارکان اور بیوروکریٹس کو دیے گئے پلاٹوں کی تفصیلات پیش نہ کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کیا، تاہم نورالامین مینگل نے 293 بیوروکریٹس کی فہرست فراہم کی جنہیں پی ایچ اے فاؤنڈیشن میں پلاٹ دیے گئے تھے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے اربوں روپے کے آڈٹ پیراز میں مالی بے ضابطگیوں پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور زیادہ تر مقدمات انکوائری کے لیے ایف آئی اے کے حوالے کر دیے، کچھ کیسز میں نور عالم خان نے سکریٹری (آئی پی سی) کو انکوائری کرنے اور دیگر کیسز میں اس حوالے سے ذمہ داریاں مختص کرنے کی ہدایت کردی۔