پاکستان

پنک ریزیڈینسی ریفرنس احتساب عدالت اسلام آباد سے اینٹی کرپشن کورٹ کراچی منتقل

پنک ریزیڈنسی ریفرنس میں اومنی گروپ کے ڈائریکٹر عبدالغنی مجید کے علاوہ 16 دیگر ملزمان پر فرد جرم ہوچکی تھی۔
|

سابق صدر آصف علی زرداری اور دیگر ملزمان کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کیسز سے منسلک پنک ریزیڈنسی ریفرنس اینٹی کرپشن عدالت کراچی کو منتقل کردیا گیا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس منتقلی کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

خیال رہے کہ پنک ریزیڈنسی ریفرنس میں اومنی گروپ کے ڈائریکٹر عبدالغنی مجید کے علاوہ 16 دیگر ملزمان پر فرد جرم ہوچکی تھی۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت کے سامنے دو سوالات ہیں، ایک یہ کیا یہ ریفرنس احتساب عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے؟ دوسرا سوال ہے کیا احتساب عدالت اس ریفرنس کو کسی اور فورم پر منتقل کرسکتی ہے؟

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ریفرنس میں نامزد 6 ملزمان پبلک آفس ہولڈرز تھے، ان ملزمان کے خلاف مالی فوائد حاصل کرنے کے الزامات نہیں لگائے گئے، چناچہ نیب قانون کے تحت ریفرنس احتساب عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ احتساب عدالت کی جانب سے نامزد پرائیویٹ ملزمان کے خلاف الگ سے عدالتی کارروائی آگے نہیں بڑھائی جاسکتی۔

تحریری حکم میں کہا گیا کہ قانون کے مطابق احتساب عدالت کیس کو متعلقہ فورم کو منتقل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

لہٰذا ریفرنس مزید کارروائی کے لیے اینٹی کرپشن عدالت سندھ کراچی ملیر کو منتقل کیا جاتا ہے۔

حکم نامے میں عدالت نے ہدایت کی کہ تفتیشی افسر ریفرنس کا تمام مواد مزید کارروائی کے لیے اینٹی کرپشن عدالت جمع کرائیں۔

خیال رہے کہ نیب نے آصف زرداری کے قریبی ساتھی کے علاوہ سندھ بورڈ آف ریونیو کے دیگر موجودہ سینئر اور ریٹائرڈ افسران کے خلاف ’پنک ریذیڈنسی‘ ریفرنس دائر کیا تھا۔

ملزمان میں آفتاب میمن، سندھ لینڈ یوٹیلائزیشن کے شعبے کے سابق سیکریٹری، اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید اور دیگر سات ملزمان شامل تھے۔

ریفرنس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ملزمان نے 23 ایکڑ اور سات ایکڑ رقبے کے دو پلاٹوں کو غیر قانونی طور پر باقاعدہ بنایا تھا جس سے قومی خزانے کو 4 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

جس میں احتساب عدالت نے کدوائی کو اشتہاری مجرم قرار دیا تھا۔

استغاثہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ اشتہاری قرار دینے کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور مفرور ملزم کا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بھی بلاک کردیا گیا تھا۔

میڈیا ورکرز سے متعلق تنازع میں چین کو بھارت سے بات چیت کی امید

’دوطرفہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ نہیں کی جارہی‘

ہم اپنے سابق انگریز حکمرانوں سے کتنا پیچھے رہ گئے ہیں؟