دنیا

بھارت نے ٹوئٹر کو بندش کی دھمکیاں دینے کی رپورٹس مسترد کردیں

ٹوئٹر کے سابق چیف ایگزیکٹو جیک ڈورسی نے کہا تھا کہ ان کے دور میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھارتی حکام کے مسلسل دباؤ میں رہا۔

بھارت نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرنے والے اکاؤنٹس کو بلاک نہ کرنے کی صورت میں ملک میں ٹوئٹر کی بندش کی دھمکیوں کے حوالے سے رپورٹس کی تردید کی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ٹوئٹر کو مواد ہٹانے کی درخواست سب سے زیادہ کرتی ہے اور پلیٹ فارم بھارتی حکام کی درخواست پر مواد کو باقاعدگی سے ہٹاتا یا بلاک کرتا ہے۔

ٹوئٹر کے سابق چیف ایگزیکٹیو جیک ڈورسی نے پیر کے روز کہا تھا کہ انہوں نے جس پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی، وہ ان کے دور میں بھارتی حکام کے مسلسل دباؤ میں رہا۔

ڈورسی نے یوٹیوب چیٹ شو ’بریکنگ پوائنٹس‘ کو بتایا کہ حکام نے مطالبات تسلیم نہ کرنے کی صورت میں بھارت میں ٹوئٹر کی بندش کے ساتھ ساتھ ملازمین کے گھروں پر چھاپے مارنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

تاہم بھارتی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر راجیو چندر شیکھر نے منگل کے روز ڈورسی کے جواب دیا کہ ڈورسی کا دعویٰ ’صاف جھوٹ‘ پر مبنی ہے اور ٹوئٹر پر مقامی قوانین کی بار بار خلاف ورزی کا الزام بھی لگایا۔

چندر شیکھر نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے ایک طویل بیان میں کہا کہ وہ ایسے کہہ رہے ہیں کہ جیسے بھارتی قوانین ان پر لاگو نہیں ہوتے ہیں، انہیں بھارت میں پلیٹ فارم سے غلط معلومات کو ہٹانے میں دشواری تھی۔

ٹوئٹر نے پچھلے سال کہا تھا کہ بھارت حکومت کی طرف سے مواد ہٹانے کی سب سے زیادہ درخواستیں بھیجنے والے ممالک کی فہرست میں جاپان، روس اور ترکی کے بعد چوتھے نمبر پر تھا۔

مارچ میں ٹوئٹر نے شمالی ریاست پنجاب میں ایک بنیاد پرست سکھ رہنما کی تلاش کے سلسلے میں کئی صحافیوں کے اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا تھا۔

2021 میں کورونا وائرس کا وبائی مرض کے عروج پر تھا اور حکومت نے ٹوئٹر اور فیس بک کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسی درجنوں پوسٹس کو ہٹا دیں جن میں حکومت کی جانب سے اس وبا سے نمٹنے کے اقدامات پر تنقید کی تھی۔

عالمی میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے اسی سال بھارت میں کسانوں کے بڑے پیمانے پر احتجاج کے دوران سوشل میڈیا کی بندش کو سینسرشپ کا واضح چونکا دینے والا معاملہ قرار دیا تھا۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں آزادی اظہار رائے کو وسیع خطرہ لاحق ہے جو 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک کی فہرست میں 21 درجے تنزلی کے بعد 161ویں نمبر پر آ گیا ہے۔