دنیا

امریکا، ایران باہمی ’افہام و تفہیم‘ سے کشیدگی کو کم کرنے کیلئے بات چیت میں مصروف

بات چیت کا مقصد ایرانی جوہری پروگرام کو محدود، زیر حراست امریکی فوجیوں کی رہائی اور بیرونِ ملک کچھ ایرانی اثاثوں کو غیر منجمد کرنا ہے۔

امریکا ایران کے ساتھ ایسے اقدامات کا خاکہ تیار کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے جس سے تہران کے جوہری پروگرام کو محدود، کچھ زیر حراست امریکی شہریوں کو رہا کیا جا سکے اور بیرون ملک ایران کے کچھ اثاثوں کو غیر منجمد کیا جا سکے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ میں کہا گیا کہ ایرانی اور مغربی حکام کے مطابق یہ اقدامات امریکی کانگریس کی جانب سے نظرثانی کرنے والے معاہدے کے بجائے ایک ’افہام و تفہیم‘ کے طور پر کیے جائیں گے۔

بہت سے لوگ روس کو اس کی فوجی امداد اس کے مبینہ مقامی جبر اور ان پراکسیوں کے لیے جنہوں نے خطے میں امریکی مفادات پر حملہ کیا، اس کی مشتبہ حمایت کی وجہ سے ایران کو فوائد دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔

2015 کے ایرانی جوہری معاہدے کو بحال کرنے میں ناکام ہونے کے بعد واشنگٹن کو امید ہے کہ ایران پر کچھ حدود بحال کرے گا تاکہ اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے جو اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اور اسلحے کی علاقائی دوڑ شروع کر سکتا ہے، تاہم تہران کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔

یورپی اور امریکی حکام امریکا-ایران بالواسطہ مذاکرات ختم ہونے کے بعد سے تہران کی جوہری کوششوں کو روکنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں، بات چیت کو دوبارہ شروع کرنے کی آمادگی ایران کے پروگرام کے بارے میں مغربی دارالحکومتوں میں عجلت کے بڑھتے ہوئے احساس کی عکاسی کرتی ہے۔

امریکی حکومت نے ان رپورٹوں کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ ایک عبوری ڈیل کی کوشش کر رہی ہے، محکمہ خارجہ کے ترجمان میٹ ملر نے ایران کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل کی تردید کی ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ تہران کشیدگی میں کمی لائے اور اپنے جوہری پروگرام کو روکے، حملے کرنے والے علاقائی پراکسی گروپوں کی مبینہ حمایت ، یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی حمایت بند کرے اور زیر حراست امریکی شہریوں کو رہا کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ان تمام اہداف کے حصول کے لیے سفارتی روابط کا استعمال جاری رکھیں گے۔‘

ایک ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ’آپ اسے جو چاہیں کہیں، چاہے عارضی معاہدہ ہو، عبوری معاہدہ ہو یا باہمی مفاہمت۔ دونوں فریق مزید کشیدگی کو روکنا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ابتدا میں ’اس میں قیدیوں کا تبادلہ اور ایران کے منجمد اثاثوں کے کچھ حصے کو غیر منجمد کرنا شامل ہو گا‘۔

انہوں نے کہا کہ مزید اقدامات میں 60 فیصد یورینیم کی افزودگی بند کرنے کے بدلے میں ایران کو تیل برآمد کرنے کے لیے امریکی پابندیوں میں چھوٹ اور اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے ساتھ ایران کا زیادہ تعاون شامل ہو سکتا ہے۔

ایران کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر راب میلے نے بھی اقوام متحدہ میں تہران کے سفیر سے کئی ماہ تک ایران کے براہ راست رابطے سے انکار کے بعد ملاقات کی ہے۔

مغربی عہدیدار نے کہا کہ 60 فیصد پر روک کے علاوہ، دونوں فریق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ مزید ایرانی تعاون اور بیرون ملک رکھے گئے ایرانی فنڈز کی ’کافی منتقلی‘ کے بدلے مزید جدید سینٹری فیوجز نصب نہ کرنے پر بات کر رہے ہیں۔

عہدیدار نے یہ واضح نہیں کیا کہ کیاتوقف کا مطلب یہ ہے کہ ایران 60 فیصد سے زیادہ افزودگی نہ کرنے کا عہد کرے گا یا وہ خود 60 فیصد تک افزودگی روک دے گا۔

یہ بھی واضح نہیں کہ اقدامات کا حکم اور ان کا تعلق ایران کے زیر حراست تین امریکی شہریوں کی رہائی سے کیسے ہو سکتا ہے، حکام نے پہلے کہا تھا کہ انہیں آزاد کرنا منجمد فنڈز کے اجرا سے منسلک ہو سکتا ہے۔