پاکستان

چیف جسٹس پاکستان نے یونان کشتی سانحے کو انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دے دیا

انسانی اسمگلنگ سے متعلق قانون میں ابہام ہے، سادہ لوح غریب شہری بیرون ملک ملازمت کے جھانسے میں آکر لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
|

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ یونان کشتی سانحہ جس میں 300 کے قریب پاکستانی شہری زندگی کی بازی ہار گئے انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔

چیف جسٹس کی جانب سے یہ ریمارکس بچوں کی انسانی اسمگلنگ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران سامنے آئے، درخواست پر عدالت عظمیٰ کا دو رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔

دوران سماعت سپریم کورٹ میں یونان کشتی حادثے کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ سادہ لوح غریب شہریوں کو بیرون ملک ملازمت کا جھانسہ دیا جاتا ہے، شہری انسانی اسمگلروں کے دھوکے میں آکر لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں، ملک میں خواتین اور بچوں کی بھی انسانی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت کے پاس بچوں کی اسمگلنگ کے اعداد و شمار ہیں؟ ڈائریکٹر جنرل وفاقی وزارت انسانی حقوق نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے بنائے گئے 2018 کے قانون میں ابہام ہے، بنیادی مسئلہ قوانین پر عملدرآمد کے لیے اسپیشلسٹ فورس نہ ہونا بھی ہے، انسانی اسمگلنگ روکنے کا کام بھی پولیس کے ذمے تھا، سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو بھی انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کا کہا، یونان میں ہونے والا کشتی حادثہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ لیبیا سے یورپی ساحلوں کی جانب روانہ ہونے والی ماہی گیروں کی کشتی بحیرہ روم میں الٹنے سے ممکنہ طور پر 750 میں سے کم از کم 600 تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔

ہلاک ہونے والے مسافروں میں زیادہ تر پاکستانی، افغان، مصری، فلسطینی اور شامی باشندے شامل تھے، ایک اندازے کے مطابق اس کشتی میں تقریباً 750 افراد غیر قانونی طور پر اٹلی جانا چاہتے تھے، ان افراد میں ایک بڑی تعداد پاکستانی شہریوں کی تھی جو تقریباً 350 سے 400 بتائی جارہی ہے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر یہ سانحہ میری ٹائم حکام کی موجودگی میں پیش آیا تھا۔ یہ بھی خیال کیا گیا کہ پاکستانی شہریوں کو عملے نے ڈیک کے نیچے رہنے پر مجبور کیا، جس نے سفر کے دوران ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔

یہ پہلا اور آخری موقع نہیں تھا جب تارکین وطن کی کشتی الٹنے اور یورپی ساحل پر انسانی لاشوں میں پاکستانی شہریوں کی شناخت نہ کی جاسکی ہو، 27 فروری کو ایک حادثہ ہوا جب اٹلی کے سمندری حدود میں ایک غرقاب کشتی کے ساتھ کئی پاکستانی بھی لقمہ اجل بن گئے، ان میں پاکستانی ہاکی کی قومی کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل تھیں۔

ایک موقع پر آج سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کچھ عرصہ پہلے طیبہ تشدد کیس بھی سنا تھا، کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ آج نویں جماعت کی ہونہار طالبہ ہے، طیبہ کو اس کے گھر والے چھوڑ چکے تھے وہ ایس او ایس ویلج میں قیام پذیر ہے، بچوں کو صرف تحفظ دینا مقصد نہیں بلکہ انہیں مضبوط بھی بنانا ہے۔

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کی گھریلو ملازمہ طیبہ پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر میں تشدد کا واقعہ منظرعام پر آیا تھا۔

پولیس نے 29 دسمبر کو جج راجا خرم اور ان کی اہلیہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا اور دونوں افراد کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تاہم 3 مارچ 2017 کو طیبہ کے والدین نے راجا خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا، تاہم اس صلح نامے کی خبر نشر ہونے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر معاملے کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

بعد ازاں 8 جنوری 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے طیبہ کو بازیاب کرا کے عدالت میں پیش کیا تھا، جس کے بعد عدالتی حکم پر 12 جنوری کو جج راجا خرم کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا، جہاں متعدد سماعتوں کے بعد 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

امریکا کی سان فرانسسکو میں بھارتی قونصل خانے میں توڑ پھوڑ کی مذمت

پاکستان کرکٹ ٹیم مئی 2024 میں ٹی 20 سیریز کیلئے انگلینڈ کا دورہ کرے گی

’گھر کے مردوں کی فرمانبرداری‘ کے مشورے پر فیروز خان کو تنقید کا سامنا