پاکستان

چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس قابل سماعت قرار

سیشن جج نے سابق وزیراعظم کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت 12 جولائی کے لیے مقرر کردی۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات چھپانے کا ریفرنس قابل سماعت قرار دے دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کے جج ہمایوں دلاور نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے ٹرائل کورٹ کو بھیجے گئے ریفرنس کی برقراریت کو چیلنج کرنے والے پی ٹی آئی سربراہ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا، ریفرنس میں ان پر توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات چھپانے کا الزام ہے۔

قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک سیشن عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس میں اس نے توش خانہ کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے کی پی ٹی آئی سربراہ کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حاضری سے استثنا کی درخواست دائر کی جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے اعتراض اٹھایا۔

عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے توشہ خانہ کیس کی درخواست قابلِ سماعت قرار دی اور آج سماعت ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

سیشن جج نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت 12 جولائی کے لیے مقرر کردی۔

جج ہمایوں دلاور نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست کو قابل سماعت قرار دیا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے پر درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت نے 12 جولائی کو گواہان کو شہادت کے لیے طلب کر لیا اور کیس کی سماعت 12 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔

یقین دہانی کے باوجودخواجہ حارث پیش نہیں ہوئے، سیشن جج

دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل گوہر علی خان نے آج سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی اور دلائل دیے کہ چیرمین پی ٹی آئی کو ضلعی کچہری میں سیکیورٹی خدشات ہیں، سیشن عدالت نے ایک روز میں تین تین درخواستوں پر بھی فیصلے جاری کیے ہیں۔

سیشن جج نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ تین روز میں ایک بار بھی وکیل خواجہ حارث پیش نہیں ہوئے، انڈرٹیکنگ آپ نے دی کہ وکیل خواجہ حارث پیش ہوں گے، بار بار کی گئی کمٹمنٹ کا کیا بنےگا،کیا ملزم کے پاس ہی حق ہے، درخواست گزار کا کوئی حق نہیں ؟

سیشن جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کا رویہ ہی ٹھیک نہیں، کوئی ایک سماعت بتا دیں جس میں چیرمین پی ٹی آئی عدالت پیش ہوئے ہوں۔

وکیل گوہرعلی خان نے دلائل دیے کہ حکومت نے خود کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو کچہری میں خطرات ہیں، آپ خود کیوں توشہ خانہ کیس میں پولیس لائنز پیش ہوئے؟

معزز جج نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں آپ کے لیے عدالت بہت نرم رویہ رکھ رہی ہے، اتنے نرم رویے کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔

سیشن جج نے وکیل گوہرعلی خان کو ہدایات کی کہ ساڑھے گیارہ بجے دلائل دیں ورنہ الیکشن کمیشن کے وکیل کو سن کر فیصلہ کریں گے۔

تاہم توشہ خانہ کیس کی سماعت ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کی 10 جولائی تک سماعت ملتوی کرنے کی درخواست

سماعت دوبارہ شروع ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز اور عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

وکیل گوہر علی خان کی جانب سے سماعت 10 جولائی تک ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی گئی۔

وکیل گوہر علی خان نے کہا کہ وکیل خواجہ حارث 10 جولائی تک عدالتی پیشی کے لیے موجود نہیں اور وہ فیملی کے ساتھ مصروفیات کے باعث 10 جولائی تک عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔

وکیل نے کہا کہ سیشن عدالت کے پاس غیراہم شکایت سننے کا اختیار نہیں۔

گوہر علی خان نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن اگر اپنی بحث مکمل کر لے تو ہم اگلے ہفتے بحث کرلیں گے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے، وکیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری فیصلے کا متعلقہ پیراگراف پڑھ کے سنایا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری فیصلہ کا حوالہ بھی دیا گیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سیشن عدالت میں پڑھا گیا۔

وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیشن عدالت کو واضح حکم دیا ہے، سیشن عدالت کو توشہ خانہ کیس پر سماعت شروع کرنے کی ڈائریکشن ریکارڈ پر موجود ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے ٹرائل کورٹ کو سماعت شروع کرنے کی ڈائریکشن کے عدالتی فیصلے بتائے اور کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈائریکشن دینے کےمتعدد فیصلے موجود ہیں۔

وکیل نے کہا کہ قادر بخش کیس میں سندھ حکومت نے شکایت دائر کرنے کی ڈائریکشن دی، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کے حوالے سے شکایت کے ساتھ اتھارٹی لیٹر لگا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف شکایت دائر کی گئی۔

وکیل نے دلائل دیے کہ قانون کے مطابق ہی الیکشن کمیشن کے افسر نے توشہ خانہ کیس کی شکایت دائر کی، الیکشن ایکٹ سیکشن 190شکایت دائر کرنے کا اختیاردیتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 190 میں شکایت دائر کرنے سے نہیں روکا گیا، الیکشن ایکٹ سیکشن 190 کے مطابق عدالت کے پاس دائر شکایت کو سننے کا اختیار ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیے کہ بھول جائیں الیکشن کمیشن کا فیصلہ، عدالت میں شکایت دائر کرنے کا تو ہر شخص کو حق ہے نا، اگر کوئی کرپٹ پریکٹس کرے تو الیکشن ایکٹ سیکشن 190 اس کے خلاف شکایت دائر کرنے کا حق دیتا۔

وکیل نے دلائل دیے کہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے شکایت دائر کی، کسی عام شخص نے شکایت دائر نہیں کی، الیکشن کمیشن کے ایک افسر نے کرپٹ پریکٹس پر شکایت دائر کی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیے کہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر شکایت کے ساتھ الیکشن کمیشن کے اتھارٹی لیٹر کو بھی لگایا ہے، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کی جانب سے شکایت دائر کرنے کا تو اتھارٹی لیٹر موجود ہے۔

انہوں نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اور فائل چیرمین پی ٹی آئی کومہیہ کی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کا پہلا سوال ہے کہ کیا شکایت دائر کرنے کی ڈائریکشن ہے یا نہیں،اتھارٹی لیٹر سے ثابت ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے شکایت دائر کرنے کی ڈائریکشن دی گئی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیے کہ سوال ہے کہ کیا سیشن عدالت کو اختیار ہے سماعت کرنے کا، شکایت کنندہ نے اوتھ پر کہا کہ الیکشن کمیشن کی ڈائریکشن پر شکایت دائر کی۔

وکیل نے دلائل دیے کہ شکایت کنندہ سے اطمینان بخش جواب ملنے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو نوٹس جاری ہوا، فرض کرلیں کہ عدالت مان لے کہ اتھارٹی کے بغیر شکایت دائر ہوئی تو کیا عدالت شکایت ڈسٹ بن میں پھینک دے گی یا اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا موقع ملے گا۔

وکیل نے دلائل دیے کہ سیشن عدالت کا دائر شکایت کو خارج کردینا حل نہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پر اعلیٰ عدلیہ میں دائر اپیلیں منظور ہونے کا حوالہ دیا۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں شکایت دائر کرنی ہو تو چیف الیکشن کمشنر تو نہیں کروائے گا، الیکشن کمیشن کمشنر نے شکایت دائر کرنی ہوتو اپنے افسر کو نامزد کرے گا۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن تو آئینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے توشہ خانہ کیس کو فالو کر رہا ہے، عدالت میں پیش ہوکر الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے شکایت دائر کرنے کی اتھارٹی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

’کرپٹ پریکٹسز کے خلاف کارروائی ای سی پی کی آئینی ذمہ داری ہے‘

اسی دوران وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے سماعت میں وقفہ کرنے کی درخواست کردی جس پر ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے سماعت میں ڈیڑھ بجے تک وقفہ کیا۔

بعدازاں کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی جہاں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ کرپٹ پریکٹس کے خلاف کاروائی کرے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا کو دائر شکایت کے حوالے سے غلط فہمی ہوئی ہے، کسی پر لگا جرم کبھی مرتا نہیں۔

وکیل نے کہا کہ جرم ثابت ہوتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ٹرائل کے بعد ہوگا، کرپٹ پریکٹس سنگین جرم ہے جس کی سزا جیل بھی ہے، قانون کے مطابق جرم کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ نہیں ہوتی۔

وکیل نے کہا کہ کسی کا کیس یہ نہیں کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس جرم نہیں، کرپشن یا کرپٹ کریٹس جرم ہے تو کیا اس کی کوئی میعاد ہوتی ہے، جرم کی ایکسپائری نہیں ہوتی۔

وکیل نے دلائل دیے کہ عمران خان کی لیگل ٹیم کے مطابق الیکش کمشنر وزیراعظم کے ساتھ ملا ہوا ہے، چیرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن کرپٹ پریکٹس پر شکایت دائر نہ کرے، آئینِ پاکستان خود کہتا ہے کہ کرپٹ پریکٹس کے خلاف کارروائی کرنی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ کسی شخص کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے قانون میں کوئی مخصوص وقت نہیں لکھا ہوا، اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بنا کربھیجا کہ سابق وزیراعظم نے تحائف ظاہر نہیں کیے، الیکشن کمیشن نے ریفرنس پر نوٹس لیا اور اس پر قانونی کارروائی کرکے فیصلہ جاری کیا۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم عمران خان کا ٹیکس ریکارڈ طلب کیا، اسپیکر قومی اسمبلی کے بھیجے گئے ریفرنس کی بنیاد پر کاروائی کو عمل میں لایا گیا، ثابت ہوا کہ چیرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ سے تحائف لیے لیکن ظاہر نہیں کیا، چیرمین پی ٹی آئی نے اعتراف کیا کہ توشہ خانہ سے تحائف لیے۔

وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن 190 کسی فرد کو کرپٹ پریکٹس کی شکایت دائر کرنے سے نہیں روکتا، اپنے دورہ حکومت میں سابق وزیراعظم نے توشہ خانہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا، لوگوں نے سابق وزیراعظم کے توشہ خانہ سے تحائف لینے کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کے حکم پر جب تفصیلات فراہم کی گئیں تو چیئرمین پی ٹی آئی کہہ رہے ہیں کہ 120 دنوں میں شکایت دائر کرنے کا وقت گزر گیا۔

تاہم پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے وکیل گوہر علی خان نے سماعت ملتوی کرنے کی دوبارہ استدعا کردی۔

سیشن جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آپ کو اتنا بڑا ریلیف دیا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو کوئی ریلیف نہیں دیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہمیں سننے کے لیے آپ کے پاس بھیجا، میں اس پر بھی متفق نہیں۔

وکیل نے دلائل دیے کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ان کا حق لیا جا رہا ہے، 12 جولائی تک وقت ہے، جلدی میں فیصلہ کیا تو ناانصافی ہوگی۔

وکیل گوہر علی خان نے پیر تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

خواجہ حارث سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں کی جاسکتی، جج

سیشن جج نے کہا کہ خواجہ حارث سینئر وکیل ہیں، ان سے اس طرح کا رویہ نہیں توقع کیا جا سکتا، توشہ خانہ کیس پر ہر پاکستانی کی نظر ہے، توشہ خانہ کیس جب سے آیا، میری عدالت میں دیگر کیسز رک گئے ہیں۔

عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کا حق سماعت ختم کردیا۔

سیشن جج نے کہا کہ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل کو وقت دیا لیکن دلائل نہیں دیے گئے، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو دلائل دینے کے لیے پیر تک مہلت دینے کی استدعا مسترد کردی اور توشہ خانہ ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے 12 جولائی کو گواہان کو سماعت کے لیے طلب کرلیا۔

توشہ خانہ ریفرنس

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ طبیعت کی خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔

فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے، جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی تھی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کردیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔

ایل سیز کھولنے میں مشکلات کے سبب سولر پینلز کی درآمدات آدھی رہ گئیں

شاہد آفریدی کا بیٹی کی رخصتی پر جذباتی پیغام

بھارت: مغربی بنگال میں بلدیاتی انتخابات کے دوران جھڑپوں میں 7 افراد ہلاک