پاکستان

کے پی ٹی کے کارگو ٹرمینل کا کنٹرول بھی متحدہ عرب امارات کی کمپنی کے حوالے کرنے کا فیصلہ

کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین نے ایک کمیٹی تشکیل دی جو متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ معاہدے کے فریم ورک کو حتمی شکل دے گی۔

کراچی کنٹینر ٹرمینل کا کنٹرول متحدہ عرب امارات کی کمپنی کے حوالے کرنے کے بعد حکومت نے اصولی طور پر فیصلہ کیا ہے کہ کراچی پورٹ کے ایسٹ وارف میں بلک اور جنرل کارگو ٹرمینل کو ’انٹر گورنمنٹل کمرشل ٹرانزیکشن ایکٹ 2022‘ کے تحت بین الحکومتی معاہدے کے ذریعے ’ابوظبی پورٹس‘ کے حوالے کردیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین نے گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کے ساتھ فریم ورک معاہدے پر بات چیت کی اجازت دی اور ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں سیکریٹری قانون اور بحری امور کے علاوہ خارجہ امور کے نمائندے شامل ہوں گے، یہ کمیٹی متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ معاہدے کے فریم ورک کو حتمی شکل دے گی۔

اجلاس میں دیگر شرکا کے علاوہ وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری، وزیر تجارت نوید قمر، وزیر توانائی خرم دستگیر، وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے شرکت کی۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ اور طارق محمود پاشا نے اجلاس کو بریفنگ دی کہ وزارت خارجہ نے ابوظبی پورٹ، متحدہ عرب امارات کی حکومت اور کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے درمیان طے ہونے والے فریم ورک معاہدے اور ایکسپریشن آف انٹرسٹ (ای او آئی) کا مسودہ ارسال کیا ہے۔

وزارت خارجہ کی جانب سے موصول ہونے والے فریم ورک معاہدے کا مسودہ جانچ کے لیے کے پی ٹی کو بھیجا گیا ہے، کے پی ٹی بورڈ نے وزارت بحری امور سے سفارش کی کہ وہ اس معاملے کو مروجہ قوانین کے مطابق آگے بڑھائیں، اس کے ساتھ ساتھ فریم ورک معاہدے کا مسودہ بھی وزارت خارجہ اور لا ڈویژن کے ساتھ شیئر کیا گیا۔

وزارت قانون نے اس پر کوئی اعتراض نہ اٹھایا اور کہا کہ وزارت بحری امور انتظامی پہلوؤں پر فیصلہ کرے جبکہ وزارت خارجہ نے سیاسی نقطہ نظر سے این او سی دیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ انٹر گورنمنٹل کمرشل ٹرانزیکشنز ایکٹ کے سیکشن 3 کے مطابق وفاقی حکومت تجارتی لین دین کے مقاصد کے لیے کسی بھی ریاست کے ساتھ معاہدہ کر سکتی ہے، ان میں وسیع پیرامیٹرز اور مطلوبہ تجارتی لین دین کو انجام دینے کا طریقہ کار شامل ہے۔

اسی ایکٹ کے تحت کابینہ کمیٹی نے ’کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین‘ تشکیل دی تھی اور اسے اختیار دیا تھا کہ وہ کسی بھی ملک کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کے لیے مذاکرات کا اختیار دے، کمیٹیاں تشکیل دے اور کابینہ کو معاہدے کی منظوری کی سفارش کرے۔

کابینہ کمیٹی نے متحدہ عرب امارات اور ’ابوظبی پورٹس‘ کے ساتھ فریم ورک معاہدے اور تجارتی شرائط پر تبادلہ خیال کے لیے ’کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین‘ تشکیل دی تھی۔

واضح رہے کہ کے پی ٹی نے پہلے ہی کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ (کے جی ٹی ایل) کو چلانے کے لیے متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ابوظبی پورٹس گروپ (اے ڈی پی جی) کے ساتھ 50 سالہ رعایتی معاہدہ کرلیا ہے۔

جنید جمشید کے حادثے کے بعد فضائی سفر سے خوف آنے لگا تھا، وسیم بادامی