دنیا

بھارتی سپریم کورٹ نے منی پور میں تشدد کے 6 ہزار مقدمات کی رپورٹ طلب کرلی

یہ بات حیران کُن ہے کہ مرکز اور ریاست دونوں کو ہی ایک ایسے واقعے کے حقائق تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو بڑے پیمانے پر قومی میڈیا پر رپورٹ ہوا، ریمارکس

بھارتی سپریم کورٹ نے منی پور پولیس پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے ریاست میں پیش آنے والے قتل، ریپ، املاک کو نذرِ آتش کرنے، خواتین کے خلاف جرائم، دیہات، مکانوں اور عبادت گاہوں کو نذرِآتش کرنے کے تقریباً 6 ہزار واقعات کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ہجوم کی جانب سے خواتین کا ریپ اور برہنہ کر کے پریڈ کروانے کے معاملے کی سماعت کی۔

بینچ نے ریمارکس دیے کہ یہ بات حیران کُن ہے کہ مرکز اور ریاست دونوں کو ہی ایک ایسے واقعے کے حقائق تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو ’بڑے پیمانے پر قومی میڈیا پر رپورٹ ہوا‘۔

بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق عدالت نے درخواست پر مزید سماعت منگل (آج) تک کے لیے ملتوی کردی اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ یہ جاننا کافی حیرت انگیز ہے کہ واقعے کو 14 روز گزر جانے کے باوجود 4 مئی کو ضلع تھوبل میں 2 خواتین پر حملے اور گینگ ریپ کے واقعے کے خلاف منی پور پولیس کے ماتحت کسی بھی تھانے میں ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

منی پور میں پیش آنے والے انسانیت سوز واقعے کی ویڈیو 19 جولائی کو وائرل ہوئی تھی، سپریم کورٹ کی جانب سے ویڈیو پر از خود نوٹس لیے جانے کے اگلے ہی روز 21 جولائی کو اس واقعے کی تحقیقات متعلقہ پولیس تھانے کے سپرد کردی گئی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے بعد 7 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا، عدالت میں وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل آر وینکا تارامانی جبکہ منی پور ریاست کی جانب سے سولیسٹر جنرل توشار مہتا پیش ہوئے، جن سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’پولیس 4 سے 18 مئی تک کیا کر رہی تھی؟ واقعے میں ہجوم نے 3 خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کروائی، ان میں سے کم از کم 2 خواتین کا ریپ بھی کیا گیا، 14 دنوں تک آخر پولیس کیا کر رہی تھی؟‘

متاثرہ خواتین کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سیبل نے ہجوم اور پولیس کے درمیان مبینہ ’گٹھ جوڑ‘ کا الزام عائد کیا، وکیل نے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو کیس منتقل کرنے پر اعتراض کیا جو کہ وزیرِ داخلہ امیت شاہ کے ماتحت ہے۔

کپل سیبل نے مؤقف اپنایا کہ بجائے اس کے کہ پولیس خواتین کو ہجوم سے بچاتی، وہ ان متاثرہ خواتین کو ہجوم کی جانب لے گئے اور انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔

عدالت نے اپنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی تجویز پیش کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 4 مئی کا واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں تھا، انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’یہ ہوم سیکریٹری کی جانب سے جمع کیے جانے والے بیان حلفی سے بھی واضح ہے، جتنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان 2 خواتین کو انصاف فراہم کیا جائے اتنا ہی ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک ایسا طریقہ کار تشکیل دیا جائے جس کے تحت تمام خواتین تک انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہوگا جس کے تحت یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تمام واقعات کی ایف آئی درج ہو اور تمام متاثرین کو اس نظام تک باآسانی رسائی حاصل ہو۔

سولیسٹر جنرل نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے ’سنجیدہ‘ ہے اور اس کے پاس ’چھپانے کے لیے‘ کچھ نہیں ہے، ساتھ ہی کہا کہ معاملے کی تحقیقات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی نگرانی کے لیے حکومت تیار ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’واقعےکی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کرنے کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جن میں سے ایک واقعے کی شفاف تحقیقات ہے، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد 24 گھنٹوں میں ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔

سولیسٹر جنرل نے مقدمے کے اندراج میں 14 روز کی تاخیر کے حوالے سے مؤقف اپنایا کہ ’18 مئی کو منی پور واقعہ ہمارے سامنے آیا‘۔

عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کیا منی پور میں پُرتشدد واقعات کے دوران ضلع تھوبل میں پیش آنے والا یہ واحد واقعہ ہے؟ عدالت نے کہا کہ ’تصور کرلیں کہ اسی طرح کے ایک ہزار واقعات مزید ہیں تو کیا سی بی آئی ان تمام واقعات سے نمٹے گی؟ اس حوالے سے مزید کتنے مقدمات درج ہوئے ہیں؟ یہاں ہمارا مقابلہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہونے والے منظم جرائم سے ہے۔‘

بینچ نے حکم دیا کہ حکومت نے جن 6 ہزار ایف آئی آر کا ذکر کیا ہے، عدالت ان تمام مقدمات کی مکمل تحقیقات چاہتی ہے۔

حکومت کا ڈیزل، پیٹرول کی قیمت میں بڑے اضافے کا اعلان

ملازمہ تشدد کیس: جج کی اہلیہ کے خلاف ایف آئی آر میں مزید 8 دفعات شامل

باجوڑ خودکش حملہ ’انٹیلی جنس کی ناکامی‘ قرار