پاکستان

خیبرپختونخوا: زہریلے مشروم کھانے سے 3 بچے جاں بحق، 4 ہسپتال منتقل

یہ واضح نہیں ہے کہ بچوں نے مشروم کی کون سی قسم کھائی تھی لیکن جو نام انہوں نے استعمال کیا ہے، وہ کھانے کے قابل نہیں، ماہر نباتیات
|

خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ کی تحصیل الپوری میں زہریلے مشروم کھانے سے 3 بھائی جاں بحق ہوگئے اور ان کے 4 بہن بھائیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

الپوری کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سجاد خان نے ڈان ڈاٹ کام کو بھائیوں کی موت کی وجہ کی تصدیق کی۔

بچوں کے والد بخشی رحمٰن نے بھی ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے بچوں نے مقامی طور پر پیچ کھرے نامی مشروم کی ایک قسم کھائی تھی۔

بخشی رحمٰن نے بتایا کہ ان کا بڑا بیٹا جمعرات کو پہاڑوں میں چارہ بھرنے کے بعد واپسی میں مشروم لایا اور رات کے کھانے کے لیے پکایا جو کہ سات بہن بھائیوں نے کھائے۔

انہوں نے کہا کہ راتوں رات بچوں کی حالت بگڑ گئی اور سب الٹیاں کرنے لگے۔

والد نے بتایا کہ ان کے چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ایمرجنسی وارڈ کے ایک ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کیا اور ان سب کو سوات کے ہسپتال لے جانے کو کہا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے دو بڑے بچے، جن کی عمریں 16 اور 11 سال تھیں، جمعہ کی صبح سوات کے سیدو ٹیچنگ ہسپتال میں انتقال کر گئے اور ان کی لاشیں لے کر اپنے گاؤں واپس آئے، جبکہ باقی بچے ہسپتال میں داخل ہیں جہاں ان کے رشتہ دار ان کے ساتھ ہیں۔

والد نے بتایا کہ ان کے باقی بچوں کی حالت بہتر نہیں ہے، تاہم انہوں نے بعد میں بتایا کہ ان کا ایک اور بیٹا فوت ہو گیا ہے۔

گورنمنٹ ڈگری کالج الپوری کے ماہر نباتیات پروفیسر عامر سلطان نے کہا کہ شانگلہ اور سوات میں خوردنی مشروم کی 34 اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن ان میں سے کچھ زہریلی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں مشروم کی 14 ہزار اقسام ہیں جن میں سے دو ہزار کھانے کے قابل ہیں۔

پروفیسر نے مزید کہا کہ خوردنی مشروم کی شناخت آسان نہیں لیکن جو مشروم کھانے کے لیے ہیں ان میں عام طور پر سفید ٹوپیاں ہوتی ہیں اور وہ مارچ سے اگست تک کھائے جاتے ہیں۔

عامر سلطان نے بتایا کہ شانگلہ میں جولائی سے دسمبر تک ملنے والے ناقابل خوردنی مشروم میں زہریلے فلائی ایگرک، ڈیتھ کیپ، فلاریس، ڈیسٹروئنگ اینجل اور دیگر شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مورچیلا شانگلہ میں پائے جانے والے مشروم کی مقبول قسم میں سے ایک ہے جو بڑے پیمانے پر کھائے جاتے ہیں اور مہنگے داموں پر فروخت ہوتے ہیں۔

پروفیسر نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ بچوں نے مشروم کی کون سی قسم کھائی تھی لیکن جو نام انہوں نے استعمال کیا ہے، وہ کھانے کے قابل نہیں۔

انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ اگر انہیں مشروم کی شناخت کا علم نہ ہو تو کھانے سے گریز کریں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جہاں تحصیل پورن کے علاقے میر کنائی چاؤگہ میں مبینہ طور پر زہریلے مشروم کھانے سے دو کمسن بہن بھائی جاں بحق ہو گئے تھے۔

علی مردان ڈومکی نے نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کا حلف اٹھالیا

پہلی فلم اتنی فلاپ ہوئی کہ لوگ مارنے کے لیے ڈھونڈتے رہے، جاوید شیخ

عالمی چمپیئن حمزہ خان کی عمر پر مصر کا اعتراض مسترد