پاکستان

’فوج کے زیرِحراست ملزمان سے ملاقات کی اجازت کوئی قانون نہیں دیتا‘

لاہور ہائی کورٹ میں حفیظ اللہ نیازی کی جانب سے اپنے بیٹے حسان نیازی کی بازیابی اور فوجی حراست میں ملاقات کی اجازت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

نگران حکومت پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ فوج کے زیرِ حراست کسی ملزم سے ملنے کی کسی قانون کے تحت اجازت نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے حفیظ اللہ نیازی کی جانب سے اپنے بیٹے بیرسٹر حسان خان نیازی کی بازیابی اور فوجی حراست میں اپنے بیٹے سے ملاقات کی اجازت دینے کی درخواست پر سماعت کی۔

بیرسٹر حسان نیازی کو 9 مئی کو کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں ٹرائل کے لیے فوج کے حوالے کیا گیا ہے۔

گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈووکیٹ اشتیاق اے خان درخواست گزار کی جانب سے پیش ہوئے اور استدعا کی کہ عدالت نے حکومت کو گزشتہ سماعت پر ملاقات یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس سلطان تنویر احمد نے استفسار کیا کہ کیا ملاقات ہوگئی ہے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نہنگ نے جواب دیا کہا کہ اس طرح کے کئی کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں، درخواست گزار کو اپنی درخواست سپریم کورٹ میں لے جانا چاہیے۔

ایڈووکیٹ اشتیاق اے خان نے نشاندہی کی کہ حکومت پنجاب نے اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم کورٹ کے سامنے کیے گئے اس وعدے کا احترام نہیں کیا کہ گرفتار افراد کو ان کے اہل خانہ سے ملوایا جائے گا۔

جسٹس سلطان تنویر احمد نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے حکم کا اطلاق پہلے سے فوج کی تحویل میں موجود 102 ملزمان پر ہوتا ہے؟

ایڈووکیٹ اشتیاق اے خان نے جواب دیا کہ عدالت کی جانب سے حکم تمام زیرحراست ملزمان کو ان کے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت دینے کا ہے، آرمی ایکٹ 1952 (جس کے تحت شہریوں کو فوجی حراست میں رکھا گیا ہے) شہریوں کو آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق کو غصب نہیں کر سکتا، فوج کی تحویل میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے بھی ان کے اہل خانہ کو ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔

انہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے حکومت کے اس دعوے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا کہ کوئی وکیل یا صحافی فوج کی حراست میں نہیں ہے اور الزام عائد کیا کہ صحافی عمران ریاض خان اور ایڈووکیٹ حسن نیازی فوج کی تحویل میں ہیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نہنگ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی 9 مئی کے مشتبہ افراد کے فوجی عدالت میں ٹرائل کا نوٹس لے رکھا ہے اور ملزمان کی اہل خانہ سے ملاقات کا معاملہ بھی اس کے سامنے زیر التوا ہے، اس ہی معاملے پر ہائی کورٹ میں کارروائی معاملہ کو پیچیدہ بنا دے گی۔

جسٹس سلطان تنویر احمد نے لا آفیسر سے سوال کیا کہ کیا اٹارنی جنرل پاکستان ملزمان کی ان کے اہل خانہ سے ملاقات کا انتظام کر سکتے ہیں؟ جس کا انہوں نے اثبات میں جواب دیا، تاہم لا آفیسر اس بات کی تصدیق کرنے سے قاصر رہے کہ کیا ملاقاتوں کے لیے ایس او پیز سپریم کورٹ کے سامنے اٹارنی جنرل کے مؤقف کی روشنی میں بنائے گئے؟

دلائل کے بعد فاضل جج نے سماعت رجسٹرار آفس کی جانب سے مقرر کردہ تاریخ تک ملتوی کر دی، گزشتہ سماعت پر نگران حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے بھانجے کو ٹرائل کے لیے فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ فوج نے پولیس سے درخواست کی کہ ایڈوکیٹ حسان نیازی کو ان کی تحویل میں دیا جائے، جنہیں سی آر پی سی کی دفعہ 549(3) کے تحت اشتہاری مجرم قرار دیا گیا ہے۔

ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا کہ حسان نیازی آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 اور پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کی دفعہ 2(ایک)(ڈی) اور 59(4) کے تحت جرائم میں ملوث پائے گئے، ان دفعات کے تحت کورٹ مارشل کے ذریعے ٹرائل کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حسان نیازی کو خیبر پختونخوا سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں 17 اگست کو فوجی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

خیال رہے کہ حسان نیازی پی ٹی آئی سے وابستہ اُن کئی اراکین میں شامل ہیں جنہیں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں ٹرائل کے لیے فوج کے حوالے کیا گیا ہے۔

25 مئی کو انسداد دہشت گردی عدالت نے کورکمانڈر کی رہائش گاہ پر حملے کے خلاف درج 2 مقدمات میں ٹرائل کے لیے پی ٹی آئی کے ایک سابق رکن صوبائی اسمبلی سمیت 16 دیگر ملزمان کو فوج کی تحویل میں دے دیا۔

نگران وزیراعظم سے ڈونلڈ بلوم کی ملاقات، شفاف انتخابات کیلئے امریکی حمایت کا اعادہ

گزشتہ 6 ماہ میں ساڑھے 4 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ گئے

ڈنمارک کا قرآن پاک کو نذرآتش کرنے پر پابندی عائد کرنے کا منصوبہ