پاکستان

شہریوں کی ’جبری گمشدگی‘ کے خلاف پی پی پی رہنما اعتزاز احسن کی سپریم کورٹ میں درخواست

پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما نے درخواست میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے پراسرار طور پر لاپتا ہونے اور پھر واپسی کا حوالہ دیا اور شیخ رشید کے انٹرویو کا ذکر بھی کیا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے ’غیر قانونی طور پر جبری گمشدگیوں‘ کے عمل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔

سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے پنجاب کے سابق گورنر اور سینئر وکیل سردار لطیف کھوسہ کے ذریعے آئین کے اصل دائرہ اختیار کے آرٹیکل 184(3) کے تحت پٹیشن دائر کی ہے، جس میں ریاست، چاروں صوبائی حکومتیں اور انسپکٹر جنرلز (آئی جی) پولیس، اسلام آباد کے آئی جی اور جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن (سی آئی ای ڈی) کو فریق بنایا گیا ہے۔

سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ درخواست کو فوری منظور کی جائے جو جبری گمشدگی آئین کے آرٹیکل 4(جس میں شہریوں کو حق حاصل ہے کہ ان سے قانون کے مطابق نمٹا جائے)، آرٹیکل 9(شہریوں کی حفاظت)، آرٹیکل 10(گرفتاری اور نظر بندی کی صورت میں تحفظ)، آرٹیکل 14(انسانی حرمت کی پامالی)، آرٹیکل 19 (آزادی اظہار رائے) اور آرٹیکل 25 (شہریوں کے درمیان مساوات) کی خلاف ورزی سے متعلق ہے۔

خیال رہے کہ پی پی پی رہنما اعتزاز احسن کی جانب سے یہ اقدام پی ٹی آئی کی شکایات کے دوران کیا گیا ہے، جو چئیرمین پی ٹی آئی کی 9 مئی کو گرفتاری کے بعد ہونے والے فسادات کی وجہ سے کئی مہینوں سے زیرحراست ہیں۔

اینکر پرسن عمران ریاض گزشتہ ماہ 4 مہینوں تک لاپتا رہنے کے بعد گھر واپس لوٹے تھے۔

رواں ماہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابق تین رہنما فرخ حبیب، عثمان ڈار ، صداقت عباسی کے علاوہ شیخ رشیدکے لاپتا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا تاہم وہ حالیہ ہفتوں کے دوران اچانک منظر عام پر آئے اور پی ٹی آئی کی پالیسیوں کی مذمت کی اور تینوں رہنماؤں نے پارٹی چھوڑنے کا بھی اعلان کیا۔

اعتزاز احسن نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ قرار دیا جائے کہ سی آئی ای ڈی نے قانونی اور بین الاقوامی معیار کی تعمیل نہیں کی۔

پی پی پی کے سابق سینیٹر نے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ’با مقصد اور مؤثر کمیشن ’کی تشکیل کا مطالبہ کیا، جن کے پاس عدالت میں دو سال تک کا وقت ہو اور اس میں پاکستان بار کونسل، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن اور خواتین کی حیثیت سے متعلق نیشنل کمیشن کے چیئرمین سمیت 11 دیگر نمائندے شامل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ کمیشن میں انٹر سروس انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، ڈی جی انٹیلیجنس بیورو(آئی بی)، اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کا صدر بھی شامل ہوں۔

پٹیشن میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ’متعلقہ اتھارٹی کو یہ حکم جاری کیا جائے کہ وہ کمیشن کی تشکیل کے وقت قانونی اور بین الاقوامی معیار ملحوظ خاطر رکھے، تاکہ قومی خزانے سے اس پر لگائی جانے والی رقم کے اخراجات کا حساب لیا جاسکے’۔

مزید کہا گیا ہے کہ تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ احکامات دیے جائیں کہ وہ اب تک ریاستی تحویل سے لاپتا ہونے والے افراد کی فہرست جمع کروائے۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ جواب دہندگان کو حکم دے کہ وہ’ ایسی رپورٹ تیار کرے اور جمع کروائیں جو قانون نافذ کرنے والے افسران اور ان حکام کی شناخت اور تحقیقات کرے جو جبری گمشدگی کے عمل کے ذمہ دار ہیں’ اور یہ رپورٹ 4 ہفتوں کے اندر سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے۔

آخر میں اس نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ ’وہ ریاستی تحویل سے لاپتا افراد کو فوری حاضر کرنے کا حکم جاری کرے اور یہ حکم دے کہ ان تمام گمشدہ افراد کو 4 ہفتوں کے اندر ہائی کورٹ کے اہل جج کے سامنے پیش کیا جائے‘۔

درخواست میں اعتزاز احسن نے اس حوالے سے پر بحث کی ہے کہ ’حال ہی میں شہریوں کی جبری گمشدگیوں اور بازیابی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے‘، ان کا مزید کہنا تھا کہ ’متاثرین میں صحافی، سیاست دان، سرکاری افسران اور دیگر اختلافی آوازیں شامل ہیں‘۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں عمران ریاض اور شیخ رشید سمیت تحریک انصاف کے 3 رہنماؤں کے مقدمے کا بھی ذکر ہے کہ وہ کئی ہفتوں کے لیے لاپتا ہوگئے اور پھر میڈیا پر ٹی وی ٹاک شوز یا پریس کانفرنس میں متوقع اسکرپٹ پڑھ کر دوبارہ منظر عام پر آگئے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح کے غیر قانونی طور پر لاپتا اور دوبارہ منظر عام پر آنے کے واقعات کا شکار سرکاری افسران بھی ہوئے ہیں، جس میں اعظم خان اور محمد علی بھٹی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یقینی طور پر آئین کے تحت بنیادی حقوق کی ضامن کے طور پر یہ معزز عدالت ریاست کی جانب سے مکمل استثنیٰ کے ساتھ کے گئے کاموں سے منہ نہیں موڑے گی۔

پٹیشن میں ان حقائق کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جو ان مقدمات میں مشترک ہیں، ’ایک شہری لاپتا ہوتا ہے، پولیس اس کے تحویل میں ہونے سے انکار کر دیتی ہے، خاندان کے کسی بھی فرد کو ان کے ٹھکانے کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا اور وہ پریشان ہوتے ہیں اور کسی کو بھی مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا اور ہر کوئی منظر عام پر آنے کے بعد اپنے ٹھکانے کے حوالے سے لاعلم ہوتا ہے اور اپنی پارٹی کے ساتھ وفاداری تبدیل کر دیتا ہے اور پرانی جماعت اور اس کے چیئرمین کی مذمت کرتا ہے‘۔

درخواست میں بتایا گیا ہے کہ’ہر گزرتے دن کے ساتھ شہری گمشدہ ہوتے ہیں اور پھر واپس منظر عام پر آنے کے بعد لوگوں کے سامنے ریاستی بیانیے کی تائید کرتے ہیں، ان گنت شہری اس وقت بھی لاپتا ہیں، ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، اسے اپنے لوگوں کو مغلوب نہیں کرنا چاہیے’۔

درخواست میں دلیل دی گئی ہے کہ ’جبری گمشدگیوں کا انسانیت کے خلاف جرم آئین کی واضح خلاف ورزی ہے‘، لہٰذا، یہ عدالت انصاف کی منزلوں کو حاصل کرنے کے لیے 2006 کے کنونشن میں درج اصول بھی لاگو کر سکتی ہے’۔

مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کی گمشدگیاں انسانی بنیادی حقوق اور بین الاقوامی قانونی فرائض کی خلاف ورزی ہیں، یہ حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ ریاست شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے، تشدد اور دیگر ظالمانہ غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کے خلاف کنونشنز کا فریق بھی ہے۔

لاپتا سیاست دان

شیخ رشید کے مقدمے کے بارے میں بتاتے ہوئے درخواست میں ان کے انٹرویو کے ایک حصے کا حوالہ دیا گیا ہے کہ’ انھوں نے بے بسی کی حالت میں یہ انکشاف کیا کہ ’میرے خلاف کوئی شے نہیں نکلی، سوائے ٹوئٹر کے، اے پڑھو جے، اے پڑھو جے، اے پڑھو جے‘۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ واضح طور پر ان کو تنہائی میں رکھ کر تفتیش کی گئی ہے جو کہ خود ساختہ تنہائی کے برعکس ہے۔

عثمان ڈار اور صداقت علی عباسی کے معاملے پر درخواست میں ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

درخواست میں فرخ حبیب کا کیس دہراتے ہوئے پٹیشن میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ فرخ حبیب نے میڈیا پر پریس کانفرنس کی جو جناح ہاؤس کیس میں ملزم نامزد ہیں جبکہ ملزمان کو ائیر ٹائم دینے پر پابندی عائد ہے۔

گمشدہ سرکاری ملازمین، صحافی

درخواست میں اس حوالے سے مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم خان کسی نامعلوم مقام سے دوبارہ منظر عام پر آئے اور اپنے سابقہ باس اور وزیر اعظم کے خلاف ریاستی گواہ بن گئے حالانکہ ان کے پریشان اور خوف زدہ اہل خانہ بھی ان کے ٹھکانے سے متعلق لا علم تھے۔

واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں اعظم خان نے القادر ٹرسٹ کیس میں یہ بیان ریکارڈ کروایا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ سائفر کیس میں اصل سفارتی کیبل چیئرمین پی ٹی آئی کے قبضے میں ہے۔

پرویز الہٰی کے قریبی ساتھی اور پنجاب اسمبلی کے سابق سیکریٹری محمد خان بھٹی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’وہ بھی نامعلوم جگہ سے دوبارہ سامنے آئے اور سابق وزیر اعلی پر الزامات عائد کیے‘۔

عمران ریاض کے معاملے میں سابق سینیٹر نے سوال اٹھایا کہ ’عمران ریاض خان کہاں سے بازیاب ہوئے اور ’کیا اس کی گم شدگی کے ذمہ داروں کی نشان دہی کی جائے گی اور ان کا احتساب کیا جائے گا‘۔

بلوچ لاپتا افراد

درخواست میں بلوچ لاپتا افراد کے معاملے پر بھی بات کی گئی، جس سے ’تاریخی اور غیر متناسب طور پر بلوچ عوام پریشان ہیں‘، ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’حال ہی میں بلوچ طلبا کو مختصر عرصے کے لیے لاپتا کیا جا رہا ہے‘۔

بلوچستان میں 50 لاپتا افراد کے بارے میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے بیان سے متعلق درخواست میں استدلال کیا گیا کہ ان کے دعوے کی ’سرکاری اعداد و شمار سے تائید نہیں کی گئی‘، اس میں مزید پوچھا گیا کہ اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں، ’ تب بھی یہ لوگ کہاں ہیں’۔

پٹیشن میں بیشتر رپورٹس کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں اقوام متحدہ کے اداروں، ہیومن رائٹس پاکستان (ایچ آر سی پی) اور سی آئی ای ڈی بھی شامل ہے۔

بیوہ ہوئی تو دوبارہ شادی نہ کرسکی، بیٹی کی دوسری کروادی، غزالہ جاوید

پاک ۔ چین حالیہ معاہدوں سے سی پیک میں نئے باب کا اضافہ ہوگا، انوارالحق کاکڑ

کراچی: صدیوں کی کتھا! (چوتھی قسط)