پاکستان

چیئرمین ایف بی آر کا تاجروں سے 40 ارب ٹیکس وصولی کے ہدف پر تحفظات کا اظہار

ٹیکس نوٹس چھوٹے تاجروں اور صنعتکاروں کے مالکان میں بے چینی اور ہراسانی کا باعث بن رہے ہیں، نائب صدر ایف پی سی سی آئی

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) کے نئے چیئرمین نے تاجروں سے رواں مالی سال کے دوران 40 ارب روپے کے ٹیکسز وصول کرنے کے ہدف پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت اعلی سطح کے اجلاس میں راشد محمود لنگڑیال نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ اور ریونیو علی پرویز نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ راشد محمود لنگڑیال نے ان لینڈ ریوینیو کے نمائندے سے وضاحت طلب کی کہ تاجر دوست اسکیم کے تحت 40 ارب روپے کس طرح وصول کیے جاسکتے ہیں، جبکہ گزشتہ مالی سال صرف 4 ارب روپے جمع کیے گئے تھے۔

ایف بی آر کے حکام عام طور پر مخصوص سیکٹر یا مصنوعات پر محصولات کا اہداف اس کی متعین کی گئی قیمت یا درآمدی حیثیت سے لگاتے ہیں۔

محمد اورنگزیب ہر ہفتے ایف بی آر ہیڈکوارٹر کا دورہ کرنے والے ملکی تاریخ کے پہلے وزیر خزانہ ہیں، سابقہ وزائے خزانہ سال میں ایک یا دو دفعہ ایف بی آر دفاتر کا دورہ کرتے تھے۔

ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ نے اس حوالے سے کہا کہ وہ ہر ہفتے بینکنگ کے شعبے میں بھی ہفتہ وار اجلاس منعقد کیا کرتے تھے، محمد اورنگزیب نے ایف بی آر کے دفتر میں روایتی چائے پینے سے گریز کرتے ہوئے ایک خاص برانڈ کی کافی کو ترجیح دی۔

اجلاس میں گلگت بلتستان کی چیف کورٹ کے چین سے خنجراب بارڈر کے ذریعے درآمدی اشیاء پر ٹیکسز کے حصول سے استسثٰنی کے حکم کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، کسٹم کے نمائندے نے وزیر خزانہ کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا ۔

اجلاس میں ٹیکس کے عمل کی ڈیجیٹلائزیشن کی پیشرفت کا جائزہ بھی لیاگیا، وزیر اعظم شہباز شریف ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے پہلے ہی وزیر مملکت برائے ریونیو علی پرویز ایک ٹاسک فورس تشکیل دے چکے ہیں۔

اجلاس کے بعد جاری کردہ سرکاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سابق ایف بی آر چیئرمین ملک امجد زبیر ٹوانہ کی آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور بجٹ سازی کے عمل میں خدمات کو سراہا۔

اس کے علاوہ ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز میر بادشاہ خان وزیر اور ممبر کسٹمز آپریشنز اشہد جواد نے اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے پریزینٹیشنز دی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیر خزانہ نےٹیکس بیس کو وسیع کرنے اور آمدنی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے ایف بی آر ٹیم کی کوششوں کو سراہا۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس انڈسٹرس (ایف پی سی سی آئی) نے چھوٹے تاجروں اور صنعتی یونٹوں کو 60 ہزار روپے کے ٹیکس نوٹس جاری کرنے کی مذمت کی ہے۔

نائب صدر (ایف پی سی سی آئی ) آصف سخی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ تاجر برادری امید کرتی ہے کہ تاجر دوست اسکیم (ٹی ڈی ایس) چھوٹے تاجروں کا ٹیکس سسٹم میں اندراج کرانے میں مدد اور اس سے جڑے فوائد حاصل کرنے میں مدد کرے گی نہ کہ اس کے برعکس ہوگا۔

پریس ریلیز کے مطابق ، پیر کے روز کراچی میں ایف پی سی سی آئی کے فیڈریشن ہاؤس کے زیر اہتمام کراچی میں چھوٹے تاجروں، چھوٹی صنعتی یونٹس اور شاپنگ سینٹرز کی تمام ایسوسی ایشنز جمع ہوئی تاکہ ’ظالمانہ ٹیکس نوٹسز اور ناقابل برداشت بجلی کے بلوں‘ پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔

آصف سخی کا کہنا تھا کہ ٹیکس نوٹس چھوٹے تاجروں اور صنعتکاروں کے مالکان میں بے چینی اور ہراسانی کا باعث بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں قومی مفاد میں واپس لینا چاہیے، چھوٹے تاجر نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں لیکن وہ غیر منصفانہ ٹیکس نہیں ادا کر سکتے۔

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام خودمختار بجلی پیدا کرنے والوں (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کرے اور قومی گرڈ کے لیے سستے ذرائع سے بغیر ’کیپیسٹی چارجز‘ کے بجلی حاصل کریں۔

آصف سخی کا کہنا تھا کہ چونکہ 50 فیصد آئی پی پی پیز حکومت کی ملکیت ہیں اس لیے ان کی بجلی خریداری کے معاہدوں کو دوبارہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بے تحاشا بجلی کے چارجز نے بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا باعث بننے کے ساتھ وسیع پیمانے پر صنعتوں کو بند کردیا ہے، ملک میں 40 ہزار میگا واٹ سے زائد کی پیداواری صلاحیت موجود ہے جبکہ طلب اور بجلی کے حصول کی صلاحیت صرف 25 ہزار میگا وٹ ہے۔