پاکستان

عمران خان کی 9 مئی کی عدالتی تحقیقات کی درخواست سماعت کیلئے منظور

کیس دوبارہ لگنے پر ہمیں سوالات پر مطمئن کرنا ہوگا، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے حامد خان کو ہدایت

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کے لیے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی دائر درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے اسے نمبر لگا کر سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے بانی پی ٹی ائی کی آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کے ٹرائلز کو غیر آئینی قرار دینے اور 9، 10 مئی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے دائر درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کی۔

درخواست گزار بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ڈیڑھ سال ہوگیا ہے، پتا تو کرا لیں کہ 9 مئی کو ہوا کیا تھا؟ ملک میں غیر علانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے، احتجاج کرنے پر فوج طلب کرلی جاتی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ مارشل لا میں وہ خود آتے ہیں، طلب نہیں کیے جاتے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے فوج تو آرٹیکل 245 کے تحت طلب کی جاتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے آپ نے اپنی درخواست میں آرٹیکل 245 کے تحت سول حکومت کی معاونت کے لیے فوج کی تعیناتی کی بات کی، یہ تو آئین میں لکھا ہوا ہے کہ آرٹیکل 245 کے تحت سول حکومت فوج کی معاونت لے سکتی ہے، آپ مارشل لا کہہ کرکے سوئپنگ اسٹیٹمنٹ دے رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے آپ کو آرٹیکل 245 کے تحت آئینی اختیار کو چیلنج کرنا پڑے گا، آپ ایک آئینی اختیار کو ان ڈکلیئر مارشل لا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ آرٹیکل 245 کے اختیار پر سوال کیسے اٹھایا جا سکتا ہے؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ اب تک یہ بھی نہیں بتا پائے کہ آرٹیکل 245 کا غلط استعمال کیسے ہوا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے سوال اٹھایا کہ درخواست مفاد عامہ کے تحت کیسے ہے؟ اس سوال پر ابھی دلائل ہونا باقی ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے ابھی صرف رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کر رہے ہیں، ابھی میرٹس پر کیس نہیں سنا، ہم آپ کو سنیں گے، لگتا ہے یہاں سب کو جلدی ہے۔

حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ 9 مئی کو بانی پی ٹی آئی سمیت سیکڑوں افراد پر کیسز درج کیے گئے، ایک پارٹی کو دیوار سے لگادیا گیا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر تو قانونی معاملہ ہے، اس کا فیصلہ عدالتیں کرتی ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے اگر کمیشن بن بھی گیا تو صرف ذمہ داری ہی فکس کرے گا، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا فوجداری مقدمات پر اثر نہیں پڑے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا آپ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا؟ حامد خان نے جواب دیا یہ کسی صوبے کا نہیں پورے ملک کا معاملہ ہے، اسی لیے سپریم کورٹ آئے ہیں، رجسٹرار آفس اعتراض لگا رہا ہے کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہی نہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے آپ ٹھوس وجہ بتائیں، بادی النظر میں تو رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور نہیں ہونے چاہئیں، وکیل حامد خان نے کہا آپ اعتراضات دور کرکے میرٹ پر سنیں تو میں عدالت کو مطمئن کروں گا۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کیس دوبارہ لگنے پر آپ کو ہمیں اٹھائے گئے سوالات پر مطمئن کرنا ہوگا۔

عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کے ٹرائلز کو غیر آئینی قرار دینے اور 9 اور 10 مئی کو ہونے والے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔