کراچی: پاکستان میں تقریباً بیس لاکھ افراد بینائی سے مکمل طور پر محروم ہیں جہاں اندھے پن کی شرح 1.08 ہے۔ صرف سندھ میں ہی 340000 افراد نابینا پن کے شکار ہیں جن میں موتیا اور ذیابیطس اندھے پن کی بڑی وجہ ہے۔
پیدائشی نابینا بچے عموماً موتیے کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جو قابلِ علاج ہوتا ہے۔ والدین کی غفلت اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے بچے باقی زندگی اندھے پن کے ساتھ گزاردیتے ہیں۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو آنکھوں کی حفاظتی تدابیر کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار ماہرِ امراضِ چشم ڈاکٹر ایم شاہنواز منامی نے کیا جو ڈس ایبلڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سربراہ بھی ہیں۔
کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ ( پی سی ایم ڈی) میں ایک آگہی لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن بچوں کو پیدائش کے بعد بینائی کا مسئلہ ہوتا ہے عموماً وہ موتیا ( کیٹیرکٹ ) میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اگر بچے کی عمر پانچ سال سے کم ہو تو اس کا مکمل علاج ممکن ہوتا ہے۔
بینائی میں مشکلات کے شکار 66 فیصد نابینا بچے عموماً موتیا ( کیٹرکٹ ) کے شکار ہوتے ہیں جس کے لئے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے جو مناسب علاج سے بینائی لوٹا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا پاکستان میں جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی سترہ فیصد آبادی ذیابیطس کی شکار ہے جو اندھے پن کی ایک اہم وجہ ہے۔
انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ عرقِ گلاب اور غیر معیاری کانٹیکٹ لینس کا استعمال نہ کریں۔