اپنی وکٹری اسپیچ میں ٹرمپ نے جس طرح فوسل فیول کی اہمیت پر تبصرہ کیا، اس سے رواں ہفتے باکو میں کوپ 29 کے لیے جمع ہونے والے موسمیاتی کارکنان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہوگی۔
بھارتی وزیرخاجہ اجلاس کے دوران پاکستان سے بات چیت کے امکان کو مسترد کرچکے ہیں لیکن جو چیز کبھی بھی ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں، اس پر تبصرے کیوں کیے جارہے ہیں؟
2012ء میں دیلی ریپ کیس کی نربھایا کی والدہ آشا دیوی نے کولکتہ واقعے پر بلا جھجک کہا کہ ان کی بیٹی کے قاتلوں کو پھانسی ہونے کے بعد بھی بھارت میں کچھ نہیں بدلا۔
یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ بنگلہ دیشی طلبہ کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں، جیسا کہ تاریخ دان ہاورڈ زن نے کہا 'یہ غلط فہمی ہے کہ بڑی تبدیلی کے وقت کوئی غیرجانبدار رہ سکتا ہے'۔
اگر مودی کی انٹیلی جنس ٹیم دور دراز ممالک میں سکھ باغیوں کا پیچھا کرنے میں مصروف نہ ہوتی تو شاید وہ اپنی اتحادی حسینہ واجد کو ڈھاکا میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کے حوالے سے خبردار کردیتے۔
سبھاش چندر بوس کہتے تھے، 'تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دوں گا'، مودی غریب طبقے کو کہتے ہیں، 'میں نے آپ کو 5 کلو چاول دیے، اب آپ کی باری ہے کہ مجھے ووٹ دیں'۔
بزنس ٹائیکون کو وزیراعظم منتخب کرنے سے سیاستدانوں کو فنڈنگ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ 'کس کی ہمت ہوگی کہ مکیش امبانی کے پاس کرنسی نوٹوں سے بھرے سوٹ کیس لے جائے؟'
دنیا کے دارالحکومتوں نے ہفتے کے روز جس چیز کے اثرات کو محسوس کیا اسے یہودی مؤرخ ایان پاپے آباد کاروں کے استعمار یا سیٹلر کولونیل ازم سے قریب تر دیکھتے ہیں۔
نریندر مودی کی حکومت میں بھارت ایک ہندو اکثریتی ریاست بنتا جارہا ہے، ایک ایسا ہندو راشٹرا جہاں ان اقلیتوں و ناپسندیدہ تصور کیاجاتا ہے جو اپنی آزاد ریاست کا مطالبہ کررہے ہیں۔