• KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:49pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:23pm
  • KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:49pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:23pm

حکومتی کمیٹی طالبان کے جواب کی منتظر

شائع February 9, 2014
حکومتی کمیٹی کے رکن کے مطابق اگر طالبان آئین کے تحت مذاکرات کرنے سے انکار کرتے ہیں تو حکومت کو مشکل کا سامنا ہوگا۔—فائل فوٹو
حکومتی کمیٹی کے رکن کے مطابق اگر طالبان آئین کے تحت مذاکرات کرنے سے انکار کرتے ہیں تو حکومت کو مشکل کا سامنا ہوگا۔—فائل فوٹو

اسلام آباد: طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی اپنی شرائط پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جواب کا بے چینی سے انتظار کررہی ہے۔

حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی کمیٹی کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ ' ہم نے طالبان کے سامنے دو شرائط رکھی ہیں کہ مذاکرات آئین میں رہتے ہوئے ہوں گے اور قبائلی علاقوں میں وہ اپنا دائرہ کار محدود کریں'۔

انہوں نے کہا کہ جمعرات سے شروع ہونے والے اس مذاکراتی عمل کا انحصار طالبان کی جانب سے ان شرائط کے جواب پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جو چیز ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ مذاکرات کے دوران آئین کا تحفظ کیا جائے۔

انہوں یہ بھی کہا کہ جس طرح جمعہ کو مولانا عبدالعزیز نے ایک پریس کانفرنس میں بھی واضح کیا اور اگر طالبان آئین کے دائرہ میں رہ کر مذاکرات سے انکار کرتے ہیں تو یہ صورتحال حکومت کو سخت مشکل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

یاد رہے کہ لال مسجد کے خطیب اور طالبان کی تین رکنی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن مولانا عبدالعزیز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت شریعت کا نفاذ کرنے پر رضامند ہوتی ہے تو اسی صورت طالبان کے ساتھ مذاکرات کا انعقاد ہوگا۔

لیکن حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن کا کہنا تھا کہ ' انہیں امید ہے کہ ٹی ٹی پی کوئی بھی ایسی شرط عائد نہیں کرے گی جس سے مصالحتی عمل متاثر ہو اور مذاکرات کے انعقاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں فریقین ایک جیسا مؤقف اختیار کریں'۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کرتی ہے تو مذاکرات ہوسکتے ہیں، لیکن اگر وہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے تو حکومت کا شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنا مشکل ہوگا۔

ملاقات کے پہلے دور میں حکومتی کمیٹی کے دائرہ کار کی وضاحت کے علاوہ ٹی ٹی پی کمیٹی نے وزیراعظم، آرمی چیف اور ڈائریکٹر جنرل آف انٹر سروسز انٹیلیجنس سے ملاقات کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

حکومتی کمیٹی میں جو لوگ شامل ہیں ان میں کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی، افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند، سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی، اور آئی ایس آئی ک سابق آپریٹو ریٹائرڈ میجر امیر خان شامل ہیں۔

اس کے علاوہ طالبان کی جانب سے تشکیل دی جانے والی مذاکراتی ٹیم میں مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم اور مولانا عبدالعزیز شامل ہیں۔

لاہور سے ڈان کے نمائندے کی رپورٹ

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے ہفتے کے روز کہا کہ آفیشل کمیٹی نے ابھی تک طالبان کی جانب سے وزیراعظم، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر سے ملاقات کرنے کے مطالبہ کی درخواست حکومت کو ارسال نہیں کی۔

انہوں نے یہ بات گزشتہ روز ایوانِ اقبال میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر زیادہ بات نہیں کریں گے کیونکہ دونوں فریقین کی کمیٹیاں مذاکرات کے لیے کام کررہی ہیں۔

ایک سوال پر وزیرِ اطلاعات و نشریات کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل کے لیے کوئی وقت نہیں دے سکتے، ہم امن کے لیے کوشش کررہیں ہیں جو ہماری منزل ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بات چیت کے عمل میں کسی قسم کا تعطل آتا ہے تو حکومت امن کی خاطر اس سے نمٹنے کے قابل ہے۔ .

کارٹون

کارٹون : 19 ستمبر 2024
کارٹون : 17 ستمبر 2024