• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

!یہ ہے بلوچستان: ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کو میرا سلام

شائع June 26, 2014
پچھلے دنوں بلوچستان میں حکمراں جماعت نیشنل پارٹی کے ایم پی اے ہینڈری مسیح بلوچ کو ان کے گارڈ نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ واقعے کی خبر ملتے ہی سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی اپنے گارڈ کے ہاتھوں قتل کی یاد تازہ ہو گئی۔
پچھلے دنوں بلوچستان میں حکمراں جماعت نیشنل پارٹی کے ایم پی اے ہینڈری مسیح بلوچ کو ان کے گارڈ نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ واقعے کی خبر ملتے ہی سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی اپنے گارڈ کے ہاتھوں قتل کی یاد تازہ ہو گئی۔

پچھلے دنوں بلوچستان میں حکمراں جماعت نیشنل پارٹی کے ایم پی اے ہینڈری مسیح بلوچ کو ان کے گارڈ نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ واقعے کی خبر ملتے ہی سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی اپنے گارڈ کے ہاتھوں قتل کی یاد تازہ ہو گئی۔

ابتدا میں یہی سمجھا گیا کہ اس قتل کا پس منظر وہی ہے۔ مجھے اس بات کا یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہینڈری بلوچ کو اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ مسیحی تھے۔ دو روز بعد میرا یہ خیال دُرست ثابت ہوا۔

معلوم ہوا کہ گارڈ کا اُن کے بھتیجے سے کوئی تنازعہ تھا اور وہ اُسے قتل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن جب ہینڈری بلوچ بھتیجے کو بچانے لگے تو وہ بھی فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔ یہ بات ہمیں نیشنل پارٹی سندھ کے سیکریٹری اطلاعات مخدوم ایوب قریشی نے بتائی۔

خیر ہم پریس کلب بیٹھے تھے کہ ہمارے سکھ دوست سردار رمیش سنگھ نے کہا؛

جناب یہ "مسیحی بلوچ" والی بات سمجھ نہیں آئی۔ ہم نے اُن سے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر ایک ہندو ارجن داس بگٹی تھے۔ سردار جی بولے ہاں ایک سکھ بگٹی سنت سنگھ بھی بلوچستان اسمبلی کے رُکن تھے.

یہ میری معلومات میں ایک اور اضافہ تھا۔ اب مسئلہ ان حضرات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا تھا کہ یہ حضرات کب اور کیسے اسمبلی پہنچے۔ بے شمار ویب سائٹس دیکھیں لیکن کوئی معلومات میسر نہیں ہوئیں۔ بلوچستان میں بے شمار صحافی دوستوں سے بات چیت کی لیکن نتیجہ لا حاصل۔

آخر کار بلوچستان کے ایک محقق دوست میر باز کاکڑ کا نمبر ملا۔ انھوں نے ہمیں ارجن داس بگٹی کے بہ حیثیت اسپیکر منتخب ہونے کی تاریخ سے آگاہ کیا۔ اب سنت سنگھ بگٹی کی تلاش شروع کی۔ سینئر صحافی صدیق بلوچ نے ہمیں بتایا کہ وہ غالباََ 1990 میں اسمبلی کے رُکن تھے۔

اب ہم ڈان کی لائبریری پہنچے اور اخبارات میں متعلقہ سنین کے اخبار تلاش کیے۔ دنوں کی محنت کے بعد اخبارات مل گئے۔ سنت سنگھ بگٹی 1990 کی اسمبلی میں رُکن تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ انھوں نے وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے انتخابات میں حصّہ لیا تھا۔ روز نامہ ڈان مطبوعہ 18 نومبر 1990میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق؛

وزارت اعلی کے لیے تاج محمد جمالی کا نام سردار ثناء اللہ زہری نے پیش کیا جن کا تعلق PNP سے تھا جب کہ IJI کے سرور کاکڑ کی تائید کی۔ ان کے مد مقابل گرو سردار سنت سنگھ بگٹی کا نام عبدالکریم نوشیروانی نے پیش کیا جب کہ تائید کنندگان میں سردار محمد طاہر لونی سمیت جمہوری وطن پارٹی کے 11 اراکین اسمبلی شامل تھے

بلوچستان کے اکثر سیاسی تجزیہ نگاروں کی سیاسی رائے یہ ہے کہ نواب اکبر بگٹی کا جمہوری وطن پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے سنت سنگھ بگٹی کی نامزدگی کا مقصد صرف تاج محمد جمالی اور ان کے حمایتیوں کو نیچا دکھانا تھا۔ لیکن ہمارے سیاسی دوست عزیز سنگور کا کہنا ہے کہ نواب اکبر بگٹی قبیلے کے ہر فرد کو مذہبی تفریق سے قطع نظر صرف بگٹی تسلیم کرتے تھے۔ اس لیے انھوں نے 1994 میں ارجن داس بگٹی کو بلوچستان اسمبلی کے لیے ڈپٹی اسپیکر نامزد کیا اور وہ کامیاب بھی ہوئے۔

ارجن داس بگٹی کے مقابلے میں جمیت علماء اسلام کے مولانا عبدالواسع اُمیدوار تھے۔ عزیز سنگور کے مطابق ان کی جماعت کے ایک قائد نے نواب اکبر بگٹی کو فون کر کے کہا تھا کہ اُن کے اُمیدوار کے مقابلے پر کم از کم کسی مسلمان کو ہی نام زد کر دیتے۔ **نواب صاحب کا جواب یہ تھا؛

"بگٹی صرف بلوچ ہوتا ہے، نا کہ سکھ، ہندو، عیسائی یا مسلمان!

2 جون 1994 کو روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں ارجن داس بگٹی نے 20 ووٹ حاصل کیے۔ جب کہ اُن کے مد مقابل جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالواسع نے 8 ووٹ حاصل کیے

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عزیز سنگور کا بیان دُرُست ہے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق رُکن ڈاکٹر عبدالحئی ان تین اراکین قومی اسمبلی میں سے ایک ہیں جنہوں نے 1973 کے "متفقہ" آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔ ان میں سے ایک میڈم جینیفر قاضی موسی اور تیسرے نواب خیر بخش مری تھے۔

اب یہ ایک اہم سوال ہے کہ اس کے باوجود 1973 کا آئین متفقہ کیوں ہے؟ ….. اس کا جواب پھر کبھی…….۔

ڈاکٹر عبدالحئی کے مطابق ہندو، عیسائی اور سکھ بلوچستان میں تقسیم ہند کے بعد بھی امن و آشتی سے رہتے تھے۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی بہ نسبت بلوچستان میں تقسیم کے وقت غیر مسلموں کی جانب سے کوئی ہجرت نہیں ہوئی۔

وہ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اپریل 1948 تک بلوچستان پاکستان کا حصہ نہ تھا۔ اس لیے وہاں غیر مسلموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس بیان کے بعد ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر غیر مسلموں کے خلاف فسادات صرف ان علاقوں میں ہی کیوں ہوئے جو پاکستان میں شامل تھے؟ کوشش کریں گے کہ اس حوالے سے بھی حقائق آپ کی خدمت میں پیش کیے جائیں۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر کو پاکستان میں سیکولرازم کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے جس اجلاس میں تقریر کی گئی اس کی صدارت اسمبلی کے ایک ہندو رکن جوگندر ناتھ منڈل نے کی تھی جن کا تعلق دلت برادری سے تھا۔ لیکن 50 کی دہائی میں وہ ہندوستان منتقل ہو گئے تھے۔

بلوچستان کے نوجوان سیاسی تجزیہ کار اکبر نوتیزئی کے مطابق گزشتہ 10 برسوں میں سینکڑوں کی تعداد میں سکھ اور ہندو بلوچستان سے ہندوستان منتقل ہوئے۔ ان میں سے تقریباً 1000 ہندو ایسے تھے جو اغوا ہونے کے بعد تاوان ادا کر کے آزاد ہونے کے بعد ہندوستان منتقل ہوئے۔

ہمارے دوست کیاّ قادر بلوچ --جنہوں نے ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کے بعد وہاں کا دورہ کیا تھا اور اس حوالے سے ان کی رپورٹ انگریزی روزنامہ ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ میں شائع ہوئی تھی-- نے غیر مسلموں کی ڈیرہ بگٹی میں آبادی کے حوالے سے ہمیں بتایا کہ؛

"ڈیرہ بگٹی میں نواب صاحب کے آبائی علاقے میں ایک مارکیٹ ہے جسے سلال مارکیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً 200 کے قریب دکانیں ہندو اور سکھوں کی تھیں۔ آپریشن کے بعد ان کی اکثریت انڈیا منتقل ہو گئی۔ اس کے علاوہ ہندو اور سکھوں کی عبادت گاہیں بھی وہاں موجود ہیں جو اب خستہ حالی کا شکار ہیں۔"

سینئر صحافی صدیق بلوچ کے مطابق جب ڈیرہ بگٹی میں نواب بگٹی کے خلاف آپریشن کیا گیا تو اس دوران 70 کے قریب ہندو اور سکھ ہلاک ہوئے تھے۔ ہندوستان منتقل ہو نے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

خیر یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاں نا صرف وہاں کی قوم پرست بلوچ پارٹیوں میں غیر مسلموں نے فعال کرداد ادا کیا بلکہ ان پارٹیوں کی جانب سے وزارات اعلیٰ سمیت اہم عہدوں کے لیے ناصرف نامزد کیا گیا بلکہ کامیاب بھی کروایا گیا۔ ایسی مثال ہمیں کسی اور صوبے میں نہیں ملتی۔

آیئے ابھی ہینڈری مسیحی بلوچ کے ذکر پر اس بلاگ کا اختتام کرتے ہیں۔ ہینڈری بلوچ نے اپنی سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔ وہ نیشنل پارٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے۔ بلوچستان کے علاقے مستونگ کے رہائشی تھے۔ پہلی بار بلوچستان اسمبلی کے رُکُن منتخب ہوئے۔

"یہ ہے بلوچستان: ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کو میرا سلام!"

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (15) بند ہیں

میر کمال خان Jun 26, 2014 01:34pm
لا جواب بلوچ صاحب، بلوچستان کے لوگ تاریخی اعتبار سے سیکولر رہے ہیں اور آجکل ایک خاص منصوبے پر عمل پیرا ہوکر کُچھ لوگ مذہبی مُنافرت پھیلا رہے ہیں جس کے سبب ہزاروں ہندو، سکھ ، اور اہلِ تشیع کے لوگ بیرونِ ملک منتقل ہو چکے ہیں
Roohan Ahmed Jun 26, 2014 04:16pm
Thanks Mr. Akhtar Baloch for giving us precious Information & i think, other provinces should earn this approach too from Balochistan
Balaj Shah Jun 26, 2014 06:26pm
Love the way as you jolted down facts and figures.
ابو بکر بلوچ Jun 27, 2014 05:48am
محترم اختر بلوچ نے واقعی عمدہ تحقیق کی جس پرانہیں داد دینی چاہیے ۔۔ اختر بلوچ نےبلوچستا ن سے دیگر مذاہب کے لوگوں کی محبت اور بلوچستان کےلوگوں کادیگر مذاہب کے لوگوں کے محبت بھرے سلوک کا ذکر کیاجوواقعی پاکستان میں بلوچستان آپ اپنی مثال ہے۔کیوں کہ ہندؤں کاپوری دنیامیں سب سے بڑا مندرہنگلاچ ماتا (نانی مندر) بھی بلوچستان کےضلع لسبیلہ میں ہے۔ لیکن اختر بلوچ نے اپنے تحقیقی مضمون میں بلوچستان میں آباد ہندو ، سکھ،عیسائی اور دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی اور ان کی تاریخی حیثیت پرقلم نہ اٹھاکرتشنگی برقرار رکھی ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ مضمون نگار آئندہ اس پربھی اپنی قلم کوجنبش دیں گے ۔۔
Riaz Ahmed Jun 27, 2014 06:44am
بہت اعلی اختر صاحب اس بلاگ سے آپکی ایچ آر سی پی کی کوہلو بہیل والی رپورٹ یاد آ گئ بہت اعلی
Nersingh Jun 27, 2014 09:26am
Very Nice and Positive for Non- Muslims. Thanks Akhtar Baloch sb you give honour to Baloch Nation. Love you Yar.
Me Shocked Jun 27, 2014 04:16pm
Indeed an Interesting and an eye opening article. I didn't realize the Baloch brothers were so liberal, multicultural, tolerant and welcomed interracial/interfaith marriages This is the first I heard of a Sikh Baloch and a member of the Bugti tribe – what a fascinating news?
sarfaraz Jun 28, 2014 08:57am
fantastic wel done very well written to keep up date my knowledge..
Pi Jun 28, 2014 10:02am
@Me Shocked: Who arranged the this marriage between the Sikh gentleman and the Bugti lady? Was it the Sardar of the tribe? What year did this wedding took place? Was it a baloch weeding or Sikh wedding? Are there similar Christian or Hindu wedding in the Bugti Tribe? I am asking because interfaith and interracial integration is new for West and by the sound of this article it was already taking placed in Baloch society time ago..
Shamss Jun 28, 2014 12:17pm
Reading Mr. Akhtar Balouch's article disturb us when we see today's Pakistan, particularly Balochistan as Mr. Balouch narrated it was secular. Virtually now we in Pakistan ignored what Pakistan was. Most of the people were liberal and tolerant if not secular. According to Omar Qureshi who used to write weekly column in Dawn 'Past was another country'.
Khanwar Jun 28, 2014 07:10pm
Akhtar Baloch article is as lucid as always, bringing hidden facts to public. the piece of writing on Balochistan may be surprising for many but not for Pukhtuns or Baloch ethic groups of the country, as both groups have been through a propaganda since 1947 defamed and branded as uncultured and brutal. Yet, both ethnic groups struggled to offset the plots against them. Since Sikh Bhugti Baloch exists meaning they have large families of their faith to have marriages withing their cast and not with others. There are Christians and Hindu Baloch who live there since centuries. Arjun Das Bhugti had succeeded Bashir Masish after his death as deputy speaker Balochistan assembly. according to my information, Guru Sanath Singh Bhugti and Arjun Das Bhugti are no more in Balochistan and have migrated to India.
rashid khan Jun 28, 2014 07:30pm
بلوچستان واقعی ایک مزہبی رواداری کے حوالے سے ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اس معاملے میں بلوچ اور پشتون ایک ہی نظریہ رکھتے ہیں یہ ایک خوش آئند بات ہے ایسی چیزوں کو منظر عام پر لانے کے لئے ڈان اردو اور مصنف دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔۔۔۔۔۔۔
Pi Jun 29, 2014 09:13am
@Khanwar: Hold on! You are confusing me very badly and you have to excused my ignorance if I offend you or anyone in any way. I am very puzzled with your comments degrading the Sikh as a cast - Sikh is a religion like Buddhism and Hinduism not a cast. You comments are offending to other religion as if they are not equal to your "CAST" and can not be equal to you. You mentioned "there are Christians and Hindu Baloch who live there since centuries." and your statement is true and valid for every corners of India and Pakistan not just your homeland. The point is that very fact that you labeled people as group then you are discriminating - meaning it was not an ideal society as you are trying to portray - your society is primitive and feudal with few selfish Western educated people on top ready to sell you at any cost - Your leaders are responsible for you backwardness, yet you blame others. You talk nonsense about freedom when more than half of your land is occupied by the Iranians. You should be ashamed of yourself talking about Sikh as a cast and not equal enough to marry in your tribes. And you call your society Secular - go and learn more what secularism means - and it does not mean hypocrisy.
Naseer Ahmad Jun 29, 2014 11:13am
Nice analysis and historical facts.
sajan kumar Sindhi Jul 01, 2014 02:24am
Nic baluch shib that is very proudable for minorities of balochistan.we always respect our dhertymata.........*emphasized text*

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024