• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

دھرنوں کے اخراجات کے لیے فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے؟

شائع August 22, 2014
۔ —. فوٹو اے پی
۔ —. فوٹو اے پی

لاہور: مسلم لیگ ن نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے پچھلے ایک ہفتے سے اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے لیے فنڈنگ کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کردی ہے۔

جمعرات کو یہاں ایک پریس کانفرنس میں پارٹی کے میڈیا کوآرڈینیٹر محمد مہدی نے کہا کہ دونوں جماعتوں کے تیس ہزار کارکنوں کو اسلام آباد لے جانے کے لیے کم از کم پانچ سو بسوں اور سو سو کوسٹروں اور وین کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مقامی ٹرانسپورٹرز سے لیے گئے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر روز بسوں، کوسٹرز اور وین کا کرایہ فی دن بالترتیب پینتس ہزار، پچیس ہزار اور بیس ہزار بنتا ہے۔ آٹھ دنوں میں ٹرانسپورٹ کے کل اخراجات سترہ کروڑ ساٹھ لاکھ تک جا پہنچتے ہیں۔

محمد مہدی نے کہا کہ تقریباً اتنی ہی رقم کارکنوں کو تین وقت کا کھانا فراہم کرنے، جنریٹروں کے لیے ایندھن، لائٹوں اور ساؤنڈ سسٹمز کے کرائے کے لیے درکار ہوگی، یوں کل اخراجات پینتس کروڑ روپے سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ اس میں پانچ ہزار کار سواروں اور پندرہ ہزار موٹرسائیکل سواروں کے اخراجات کی رقم شامل نہیں کی گئی ہے، جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں اور وہاں قیام کررہے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فنڈنگ کے کون سے ذرائع ہیں، جنہیں استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے مطالبہ کیا کہ وہ شفافیت کی خاطر کرپشن سے پاک ان لوگوں کی سرگرمیوں کے بارے میں حقائق عوام کے سامنے پیش کریں۔

تبصرے (4) بند ہیں

ali Aug 22, 2014 06:59pm
chori ka maal hai
Uzma Aug 22, 2014 10:48pm
y don't u ask this question from #DTQ ? he will tell u each and every thing! #NamazEInqilab
Uzma Aug 22, 2014 10:50pm
Jo favour main kry ga usi ka manzoor Karen gy? #NamazEInqilab
Inam ul haq Aug 23, 2014 12:59pm
حکومتی مشینری حکومت کے زیر دست ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ اس کی تحقیقات کروائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ کون کتنا محب وطن ہے عوام کو واضح ہو سکے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024