• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کروں گا کیا جو "الیکشن" میں ہو گیا ناکام

شائع May 5, 2015 اپ ڈیٹ May 6, 2015
پاکستان تحریک انصاف کے حامد خان ( بائیں) نے اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق (دائیں) کی اہلیت کو چیلنج کر رکھا تھا—۔فوٹو/ اے پی پی، حامد خان آفیشل فیس بک اکاؤنٹ
پاکستان تحریک انصاف کے حامد خان ( بائیں) نے اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق (دائیں) کی اہلیت کو چیلنج کر رکھا تھا—۔فوٹو/ اے پی پی، حامد خان آفیشل فیس بک اکاؤنٹ

ابھی لاہور کے دو کنٹونمنٹ بورڈز میں اکثریت حاصل کرنے پر مسلم لیگ نواز کے بھنگڑے ختم نہیں ہوئے تھے کہ الیکشن ٹربیونل کی جانب سے لاہور کے حلقہ این اے 125 اور پی پی 155 میں دوبارہ انتخابات کروانے کے احکامات آگئے، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے بھنگڑے اور نواز لیگ کے کارکنوں کا ماتم شروع ہوگیا۔

لاہور کا حلقہ این اے 125 ان چار حلقوں میں سے ایک ہے، جن کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے اور تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ اگر الیکشن کمیشن ان چار حلقوں میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی جانچ پڑتال کروا لے، تو انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔

اس کے علاوہ ان چار حلقوں میں لاہور کا ایک اور حلقہ این اے 122، سیالکوٹ کا حلقہ این اے 110، اور لودھراں کا حلقہ این اے 154 بھی شامل ہے۔

الیکشن ٹربیونل کے جج جاوید رشید محبوبی نے فیصلہ سنانے کے بعد دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ حلقہ این اے 125 میں 265 پولنگ اسٹیشنز تھے، جن میں سے 7 پولنگ اسٹیشنز کا ریکارڈ پہلے ہی فارینسک لیب اور پھر نادرا کو بھیج دیا گیا تھا۔

پڑھیے: اگر دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو؟

الیکشن ٹربیونل کے جج کے مطابق دونوں اداروں نے رپورٹ دی کہ متعدد ووٹرز کے نشانِ انگوٹھا ایک سے زائد بیلٹ پیپرز پر پائے گئے ہیں، جبکہ کئی شناختی کارڈز بھی درست ثابت نہیں ہوئے۔

اس کے علاوہ الیکشن ٹربیونل کے جج کا کہنا تھا کہ 10 پولنگ سٹیشنز کے چیک کردہ ریکارڈ میں سے تین کا ریکارڈ مکمل نہیں تھا، تقریباً 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز کے پریزائیڈنگ آفیسرز کی جانب سے جو نتائج فارم نمبر 14 پر آر اوز کو بھیجے گئے، ان پر پریزائیڈنگ آفیسرز کے نہ دستخط ہیں اور نہ نشانِ انگوٹھا۔

فیصلہ آنے کے بعد خواجہ سعد رفیق نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ٹریبونل کا فیصلہ پریزائیڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی نااہلی کے خلاف ہے۔

سعد رفیق کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف جج صاحبان کا کہنا ہے کہ دھاندلی ثابت نہیں ہوئی جبکہ دوسری جانب دوبارہ الیکشن کا حکم دے دیا گیا۔

الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعد رفیق انتہائی خوشگوار موڈ میں تھے، جس پر ایک صحافی نے ان کی خوشی کی وجہ بھی پوچھی۔ جواب میں سعد رفیق کا کہنا تھا کہ مجھے اس فیصلے سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی، اور ہم اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

خواجہ سعد رفیق اس پریس کانفرنس میں خود کو ٹربیونل کے فیصلے میں بے گناہ گردانتے رہے، مگر درحقیقت الیکشن ٹربیونل کے فیصلے نے ایک منظم دھاندلی کو آشکار کیا ہے، جس میں ریٹرننگ آفیسر اور پریزائیڈنگ آفیسرز ملوث تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتخابات میں بے ضابطگیاں نہیں ہوئیں، بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ریٹرننگ آفیسر اور پریزائیڈنگ آفیسرز کے ذریعے دھاندلی کروائی گئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پریزائڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران ایسا کیوں کریں گے؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ خواجہ سعد رفیق کی ایما پر دھاندلی ہوئی، کیونکہ اس حوالے سے کوئی ثبوت موجود نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر ریٹرننگ آفیسر اور پریزائیڈنگ آفیسرز نے کس کی ایما پر یہ سب کچھ کیا؟ اگر ان کا مقصد نواز لیگ کے امیدوار کو جتوانا نہیں تھا تو پھر آخر وہ چاہتے کیا تھے۔

حلقہ این اے 125 سے تحریک انصاف کے امیدوار حامد خان کے مطابق الیکشن ٹربیونل کے پاس فیصلہ دینے کے لیے صرف تین آپشنز موجود تھے۔

1: جیتنے والے امیدوار کو نااہل قرار دے کر دوسرے نمبر پر آنے والے کو کامیاب قرار دے۔

2: انتخابات کو ہی کالعدم قرار دے دے۔

3: انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بذریعہ دھاندلی کامیاب ہونے والے امیدوار کو نااہل قرار دے دے۔

مزید پڑھیے: مبینہ دھاندلی: جوڈیشل کمیشن کا تین نکاتی سوالنامہ

الیکشن ٹربیونل نے ان تین آپشنز میں سے دوسرے آپشن کو استعمال کرتے ہوئے حلقہ این اے 125 اور پی اے 155 میں دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا۔

پاکستانی آئین کے آرٹیکل 124 کے مطابق الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، مگر یہ یاد رہے کہ سپریم کورٹ مذکورہ فیصلے پر حکم امتناعی بھی جاری کر سکتی ہے۔ جس کے بعد دوبارہ انتخابات نہیں ہو پائیں گے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ جو بھی آئے، اس فیصلے کے بعد سے سیاسی فضا پھر سے گرم ہوگئی ہے، اور اگر سپریم کورٹ میں خواجہ سعد رفیق کی اپیل مسترد ہوجاتی ہے، تو لاہور کے حلقہ این اے 125 میں دوبارہ الیکشن ہوں گے، جس میں کانٹے دار مقابلہ دیکھا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف حامد خان سے کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات میں مایوس کن کارکردگی پر ناخوش ہے، جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ اس حلقے سے تحریک انصاف کا ٹکٹ کسی اور امیدوار کو دے دیا جائے۔

مگر تحریک انصاف کو یہ مدّ نظر رکھنا چاہیے کہ سیاست آرٹ ہے، اور الیکشن سائنس، جس سے تحریک انصاف کسی بھی طرح آشنا نہیں۔ جبکہ نواز لیگ کے متوقع امیدوار خواجہ سعد رفیق سیاست کے فن کی سمجھ رکھنے کے ساتھ ساتھ الیکشن لڑنے کی سائنس پر بھی مہارت رکھتے ہیں۔

لیکن سائنس میں کتنی بھی مہارت کیوں نہ ہو، فی الحال تو ان کی جیت کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے، اور وہ اپنی نشست سے محروم ہو چکے ہیں۔ اب نئے الیکشن کی پریشانی انہیں گذشتہ الیکشن سے زیادہ ہوگی، کیونکہ اب کراچی کے حلقہ این اے 246 کی طرح بات اب اپنا مینڈیٹ ثابت کرنے پر آجائے گی۔

گذشتہ روز الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد خواجہ سعد رفیق کی حالت کچھ یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ

کروں گا کیا جو "الیکشن" میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

[email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ May 05, 2015 08:27pm
یہ بلاگ ہے یا این اے ایک سو پچیس کی خبروں کا ضمیمہ ہے؟

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024