• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

چیل چوک اور اقبال کا شاہین

شائع September 5, 2015
چیل چوک، لیاری۔ فوٹو حسین افضل/ڈان ڈاٹ کام
چیل چوک، لیاری۔ فوٹو حسین افضل/ڈان ڈاٹ کام

چیل تو گھاس نہیں کھاتی مگر گھاس بیچنے والے کے نام سے منسوب چوک کا نام چیل چوک کیسے پڑ گیا؟ ذکر ہے لیاری کے اس مشہور چیل چوک کا جو اب لیاری کی شناخت بن گیا ہے۔ یہ وہ چیل چوک ہے جہاں سے اندرونِ لیاری کا آغاز ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک ہفتے تک اپنے تمام وسائل استعمال کرنے کے باوجود لیاری میں آپریشن کے لیے اس چوک سے آگے نہ بڑھ سکے۔

لیاری کے سابقہ باشندے ایوب قریشی، جو نیشنل پارٹی صوبہء سندھ کے سیکریٹری اطلاعات ہیں، کہتے ہیں کہ آج جس لیاری کو بھتہ خوری، گینگ وار، اور اغوا برائے تاوان کے حوالے سے شناخت کیا جاتا ہے، گذشتہ دور میں لیاری رواداری، جمہوریت پسندی اور آمریت کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا۔

یہی لیاری تھا جہاں کے بسنے والے خواہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل یا مذہب سے ہوتا، نظریاتی اعتبار سے یکجا تھے۔ اس کی ایک بڑی مثال لیاری ٹاؤن کے گذشتہ بلدیاتی انتخابات تھے۔ لیاری ٹاؤن کی کم و بیش تمام یونین کونسلوں میں منتخب ناظمین کا تعلق بلوچ برادری سے تھا۔ مگر ان ناظمین نے اپنے بلوچ قومی اسمبلی کے ممبر نبیل گبول کی ہدایات سے انحراف کرتے ہوئے میانوالی برادری کے ملک فیاض کو ٹاؤن ناظم اور ملک محمد خان کو نائب ناظم منتخب کیا۔

اس سے قبل لیاری ٹاؤن کے ناظم عبدالخالق جمعہ تھے جن کا تعلق لاسی برادری سے تھا۔ عبدالخالق جمعہ لیاری سے صوبائی اسمبلی کے رُکن بھی منتخب ہوئے۔ اسی طرح واجا داد کریم جو لیاری سے 1988 میں قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے، اُن کا تعلق بھی آغا خانی اسماعیلی برادری سے تھا اور شاید پورے پاکستان میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے وہ واحد رُکن قومی اسمبلی تھے۔

لیاری میں بسنے والے تمام لوگوں کی شناخت لیاری ہی تھا، بجائے اس کے کہ وہ اپنی ذات، برادری یا مذہبی شناخت کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ مگر اب یہ تمام چیزیں یاد ماضی بن گئی ہیں۔ خیر ہم ذکر کر رہے تھے چیل چوک کا۔ یہ چوک 80 کی دہائی میں ابراہیم چوک کے نام سے مشہور تھا۔ ابراہیم چوک کا نام کب اور کیسے پڑا، اس بارے میں سرکاری دستاویزات دستیاب نہیں۔ لیکن علاقے کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اس چوک پر ابراہیم نامی ایک شخص گھاس فروخت کرتا تھا۔ اس سے لیاری کے گدھا گاڑی بان اور مویشی پالنے والے چارا خریدتے تھے، اس لیے اس چوک کا نام ابراہیم چوک ہوگیا۔

غالباً یہ پاکستان میں پہلا چوک ہے جو ایک گھاس بیچنے والے کے نام سے منسوب تھا۔ ترقی پسند سماجی کارکن تاج مری چیل چوک کے بارے میں ایک الگ ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ تاج مری کا کہنا ہے کہ ایوبی آمریت کے خلاف جدو جہد ہو یا ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف چلائی جانے والی تحریک، لیاری نے ہر دور میں ایک ترقی پسند اور روشن خیال علاقہ ہونے کا ثبوت پیش کیا اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ہر قسم کی قربانیوں سے دریغ نہیں کیا۔

ایم آر ڈی کے تحریک کے دوران عموماً احتجاجی مظاہرے چاکیواڑہ کے آٹھ چوک پر ہوتے تھے۔ آٹھ چوک کو پولیس پہلے ہی سے گھیرے میں لے لیتی تھی۔ یہ ممکن نہ تھا کہ مظاہرین یا جلوس کے شرکاء آٹھ چوک سے آگے بڑھ کر لی مارکیٹ یا نیپیئر روڈ تک پہنچ کر شہر کے دیگر علاقوں کو بھی متاثر کر سکیں۔ اس لیے کامریڈوں کی نظر اس چوک پر پڑی۔ اس کی وجہ غالباً اس چوک سے متصل عثمان آباد اور رنچھوڑ لائن کی یہودی مسجد کے کاروباری علاقے تھے جہاں بسنے اور کاروبار کرنے والے افراد کو اس بات سے کوئی سروکار نہ تھا کہ ضیاء الحق رہے یا نہ رہے جمہوریت بحال ہو نہ ہو، بس اس بات کی فکر تھی کہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔ رنچھوڑ لائن کے مرکزی چوک پر یہودیوں کی عبادت گاہ (جسے یہودی مسجد کہا جاتا ہے) ہوتی تھی۔ جس کی جگہ پر اب ایک عالیشان کاروباری مرکز کھڑا یہودیوں کو منہ چِڑا رہا ہے یہ سب کب ہوا کیوں ہوا کیسے ہوا اس کا ذکر یہاں پڑھیں۔

کامریڈوں کی یہ حکمت عملی تھی کہ اس چوک پر مظاہروں کے ذریعے مرکزی شہر کے ایک کاروباری علاقے میں سرگرمیوں کو معطل کیا جا سکتا ہے اور اس کے اثرات دیگر کاروباری علاقوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ لیاری کے مکین مارشل لا اور ضیاء الحق سے شدید نفرت کرتے تھے۔ کسی بھی پولیس کارروائی کی صورت میں جب وہ پسپا ہوتے تھے تو لیاری کے لوگ خصوصاً خواتین انہیں پناہ دینے کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھتی تھیں تا کہ کامریڈ اگلے روز دوبارہ کسی مظاہرے میں شریک ہو کر ضیائی آمریت کی”جڑیں ہلا سکیں“۔

لیکن سوال پھر بھی برقرار ہے کہ ابراہیم چوک چیل چوک کیسے ہوا؟ اس کا جواب علاقے کے ایک مکین اور سماجی کارکن الہٰی بخش بلوچ نے کچھ یوں دیا کہ پندرہ بیس سال قبل جب کراچی کی بلدیہ عظمیٰ نے کراچی کے مختلف چوکوں کی تزئیں و آرائش کا کام شروع کیا تو ابراہیم چوک پر بھی ایک مینار بنا کر اس پر اقبال کا شاہین نصب کر دیا۔ لیکن چونکہ علاقے کے بلوچ اقبال کے شاہین سے اتنی زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے اس شاہین کو چیل سمجھ لیا اور پھر اس چوک کا نام بتدریج چیل چوک پڑگیا۔

دو سال قبل لیاری میں آپریشن کے دوران سی آئی ڈی کے جاں بحق افسر چوہدری اسلم کی قیادت میں ایک ہفتے سے زیادہ طویل وقت تک آپریشن کرنے والے شاہین چیل چوک سے آگے نہ بڑھ سکے۔ لگتا ہے کہ لیاری میں اب بھی ایم آر ڈی کی تحریک کے وقت کے مزاحمت کاروں کی منصوبہ بندیوں پر عمل کرنے والے موجود ہیں۔ غالباً ان ہی کی حکمت عملی پر چیل چوک کے اطراف میں بسنے والے عمل پیرا ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ جمہوریت بحال کرنے کی تحریک تھی اور اب یہ۔۔۔۔۔؟

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024