• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

ایک خاندان، جسے مٹھائی نے اجاڑ دیا

شائع April 26, 2016

لیہ: صوبہ پنجاب کے ضلع لیہ کے گاؤں چک نمبر 109-م ل میں عمر حیات کے مٹی کے چھوٹے سے گھر میں گذشتہ بدھ سے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، پہلے لوگ انھیں مبارکباد دینے آرہے تھے اور اب تعزیت کرنے۔

عمر حیات کے پوتے عبداللہ کی پیدائش گذشتہ بدھ کو ہوئی، جس کے بعد اس کے والد محمد سجاد نے چک نمبر 111-ٹی ڈی اے کی ایک مٹھائی کی دکان سے 5 کلو لڈو خریدے تاکہ اس خوشی کے موقع پر سب کا منہ میٹھا کرواسکے۔

محمد سجاد کو علم نہیں تھا کہ ان لڈوؤں میں کوئی زہر ملا ہوا ہے اور جس جس نے وہ لڈو کھائے، ایک کے بعد ایک یا تو وہ موت کے منہ میں چلا گیا یا پھر اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔

طارق ہوٹل اینڈ سوئیٹ شاپ  کا مٹھائی رکھنے والا شوکیس فتح پور پولیس کی تحویل میں —۔فوٹو/ ڈان
طارق ہوٹل اینڈ سوئیٹ شاپ کا مٹھائی رکھنے والا شوکیس فتح پور پولیس کی تحویل میں —۔فوٹو/ ڈان

محمد حیات کے سجاد سمیت 8 بیٹے، ایک بیٹی اور 3 پوتے بھی اس واقعے میں ہلاک ہوگئے۔

حیات کے پڑوسی غلام حسین نے روتے ہوئے بتایا، ہم جمعرات سے 15 لاشوں کی تدفین کرچکے ہیں، اللہ ہمیں معاف فرمائے'۔

اُس بدقسمت دن طارق ہوٹل اور سوئیٹ شاپ سے مٹھائی خریدنے والے درجنوں افراد یا تو مر چکے ہیں یا پھر لیہ، ملتان، بھکر اور فیصل آباد کے مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

پیر 25 اپریل تک ہلاکتوں کی تعداد 26 تک جاپہنچی تھی جو ہفتہ 23 اپریل کو 23 اور جمعہ 22 اپریل کو 14 تھی۔

مقامی افراد کے مطابق مٹھائی کھانے کے بعد اہلخانہ نے الٹیاں شروع کردیں، انھیں لیہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اسی دوران زہر خورانی کے دیگر مریض بھی مذکورہ ہسپتال اور فتح پور، بھکر اور کروڑ کے دیگر ہسپتالوں میں لائے جاتے رہے۔

ڈاکٹروں نے اُن مریضوں کو ملتان کے نشتر ہسپتال بھیج دیا، جن کی حالت تشویش ناک تھی، تاہم ڈاکٹر بدھ کو ہسپتال لائے جانے والے 72 میں سے 26 افراد کو بچانے میں ناکام رہے۔

محمد حیات کے خاندان کے 12 افراد اس زہریلی مٹھائی کا شکار ہوئے، جن میں سجاد، محمد عرفان، رمضان، شہباز، خضر حیات، شیر محمد، سکندر حیات، محمد ارشاد، فرزانہ بی بی، شائستہ بی بی، ارم اور حسیب شامل ہیں۔

دیگر ہلاک شدگان میں غلام سرور، عدنان، عادل، عبدالغفور، امیر محمد، گلناز علی، بلال، نزاکت علی، اشرف علی، محمد عرفان، محمد برہان، عبداللہ غلام غازی اور عشرت شامل ہیں۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ حکام نے مذکورہ مٹھائی کی دکان کو سیل کردیا اور مٹھائی کے نمونے لاہور کی فرانزک لیبارٹری بھجوائے گئے، جبکہ دکاندار کے خلاف خالص فوڈ ایکٹ کی دفعات 23-سی، 23-ای، 23-اے اور 23-ڈی کے تحت فتح پور پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کروا دیا گیا۔

متوفی سجاد کے انکل محمد اقبال کی مدعیت میں بھی دکان کے مالک طارق، خالد محمود اور 12 سالہ ملازم حامد کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 322 اور 337-جے کے تحت مقدمہ درج کرکے انھیں گرفتار کرلیا گیا۔

محکمہ صحت کے عہدیداران نے ڈان کو بتایا کہ مٹھائی میں سلفونائیل نامی زہریلا مواد پایا گیا جو انتہائی مہلک تھا، پاکستان میں اس پر پابندی ہے اور یہ فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر جراثیم کش ادویات فروخت کرنے والی دکان پر یہ موجود ہوتا ہے۔

ایک مقامی ڈاکٹر نے ڈان کو بتایا کہ اس زہریلے مواد نے لوگوں کے دماغ اور پھیپھڑوں کو متاثر کیا، جس سے اُن کے بچنے کے امکانات انتہائی کم ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ 2 مریضوں کو کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کیا جاسکتا ہے تاکہ اس زہریلے مادے کے اصل نقصانات کا تعین کیا جاسکے۔

واقعے کے بعد پنجاب کے وزیر خوراک بلال یاسین اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمود الرشید نے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کی۔

وزیرصحت نے ہر خاندان کو 50 ہزار روپے کا چیک دیا او ڈاکٹروں کو حکم دیا کہ متاثرین کو لاہور کے جناح ہسپتال منتقل کیا جائے، جس کے بعد 8 مریضوں کو لاہور منتقل کردیا گیا۔

دوسری جانب محمود الرشید نے واقعے کی تحقیقات کے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر کمیشن نہیں بنایا گیا تو اپوزیشن پنجاب اسمبلی کی عمارت کے باہر دھرنا دے گی۔

لیکن یہ معاوضہ اور مذمت بھی عمر حیات کو تسلی دینے میں ناکام ہے، جو اکثر اوقات بالکل دیوانوں کی طرح ہوجاتے ہیں۔

تاہم جب ان کے حواس دوبارہ بحال ہوئے تو عمر حیات نے کہا، 'میری 2 بہوؤیں بیوہ اور 3 پوتے یتیم ہوچکے ہیں'۔

یہ خبر 26 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Saeed Mashaal Bhatti Apr 26, 2016 04:08pm
اس طرح جانے کتنی ہی زندگیاں 'معاشرتی لاپرواہی' کی بھینٹ چڑ جاتی ہیں اور ہمارا معاشرہ اس کے تانے بانے قسمت سے ملا دیتا ہے جبکہ ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے
LIBRA Apr 26, 2016 04:28pm
astagfirullah

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024