تہذیبی تصادم ایک مفروضہ
امریکہ کے اعلانِ آزادی (1776ء) سے لے کر 2005ء تک امریکی مسلح افواج 220 مرتبہ اقوام عالم کے خلاف جارحیت کی مرتکب ہو چکی ہیں۔ ان دو سو تیس سالوں میں، دو سو بیس مرتبہ جارحیت کے ارتکاب کی یہ شرح کسی بھی ملک کی شرح جارحیت سے کئی گنا زیادہ اور بیشتر صورتوں میں کئی سو گنا زیادہ ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ تیئس ملکوں پر بمباری کا مرتکب ہو چکا ہے، ان ممالک میں چین (دو مرتبہ) گوئٹے مالا (تین مرتبہ) کوریا، انڈونیشیا، کیوبا، کانگو، پیرو، سوڈان، افغانستان لاؤس، ویت نام، کمبوڈیا، گرینیڈا، لبنان، لیبیا، السلواڈور، نکارا گوا، پانامہ، عراق، (دو مرتبہ) اور یوگو سلاویہ شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر میں یکساں انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، اس کے باوجود بہت سے ترقی پذیر ممالک میں عوام کی بڑھتی ہوئی مفلسی کے ذمہ دار حکمرانوں کو دنیا کے طاقتور ممالک خاص طور پر امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے!
اس امریکی حمایت کی زد بالخصوص تیسری دنیا پر پڑتی ہے اور اس کا شکار بالعموم پسماندہ اور مفلس انسان ہی ہوتے ہیں، جن میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مسلم دنیا میں زیادہ سےزیادہ عدم استحکام پیدا کرنا بظاہر مغربی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ محسوس ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ اس حقیقت سے کسی طور انکار نہیں کرسکتے کہ انہوں نے گزشتہ سوسال کے عرصے میں تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے دوران پوری مسلم دنیا کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شاید دانستہ طور پر طے کر لیا گیا تھا کہ مسلم ممالک کو پسماندگی سے دوچار رکھنا ہے۔
پس پردہ حقیقت تو یہی محسوس ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں جنگ کا ماحول گرم کرکے قیمتی وسائل کی لوٹ مار پر پردہ ڈالنے کے لیے ہی سامراجی دانشور سیموئل پیٹر ہٹینگٹن نے 1993ء میں، تہذیبوں کے تصادم کا مفروضہ ایجاد کیا تھا۔ اس مفروضے میں بتایا گیا کہ دنیا بھرمیں جہاں بھی کسی قسم کی تصادم کی صورتحال موجود ہے ،اس کے پس پردہ اقتصادیات یا معاشیات کی تھیوری نہیں بلکہ اصل وجہ تہذیبوں کا باہمی ٹکراؤ ہے۔
ہٹینگٹن کی محض اس ایک دلیل سے ہی استعماری طاقتوں کا مکروہ چہرہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق تہذ یب سے تو مراد ہی مہذب انسانوں کا گروہ ہے، انسانی گروہ اُسی وقت باہم دست و گریباں ہوتے ہیں یا کسی قوم یا گروہ پر حملہ آور ہوتے ہیں،جبکہ وہ تہذیب یافتہ نہیں ہوتے۔
تہذیب کا مطلب ہے کہ لوگ اپنے مسائل کا حل آپس میں پُرامن طریقے سے بات چیت کے ذریعے نکالیں، تہذیب یافتہ سماج میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں۔ فریب اور دھوکے سے کسی گروہ یا قوم پر حملہ آور ہونا یا اپنے مفاد کے لیے کسی خطے میں تصادم کی صورتحال پیدا کرنا کیا مہذب ہونے کی علامت ہوسکتی ہے؟
شاید ہٹینگٹن صاحب کا مقصد اپنے آقاؤں کو بدنامی سے بچانا تھا اسی لیے انہوں نے اس سفید جھوٹ کو گڑھا۔ انہوں نے بتایا کہ عیسائی اور ہندو تہذیب، مسلم تہذیب سے اوربدھ تہذیب کنفیوشس تہذیب سے ٹکرا رہی ہے۔
لیکن شاید بعد میں انہوں نے سوچا ہوگا کہ لوگ یہ سوال نہ کر بیٹھیں کہ جناب! اگر ایسا ہی ہے تو پھرسووئیت روس اور لاطینی امریکہ کے عیسائی ،امریکی، اسپینش، برطانوی یا فرانس کے عیسائیوں کےمدمقابل کیوں کھڑے ہیں؟
یہی سوچ کر شاید اُنہوں نے ایک نیا بہانہ پیش کیا اور وہ یہ تھا کہ لاطینی امریکہ اور سوویت روس کی عیسائی تہذیب چونکہ آرتھوڈکس عیسائی تہذیب ہے اس لیے امریکہ کی لبرل عیسائی تہذیب کےخلاف ہے۔
کیا یہ مضحکہ خیز صورتحال نہیں کہ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں جبکہ انسانی شعور اپنے عروج پر ہے، واہمہ Illusion پیدا کرنے والی اس تھیوری کو بہت سے دانشوروں اور مفکرین نے بھی سچ مان لیا؟
عالمی میڈیا کے پروپیگنڈے سے دنیا بھر میں ”تہذیبی تصادم“ کی تھیوری بطور اصطلاح زبان زدِعام ہوگئی اور انسانوں کی بڑی تعداد خصوصاً مسلمانوں نے اسے روشن حقیقت سمجھ کر قبول کرلیا۔ انہوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ امریکہ گویا مسلمانوں کا یا ان کے مذہب کا دشمن ہے۔
گزشتہ چند صدیوں پر مشتمل انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو چونکا دینے والے حقائق سامنے آئیں گے۔
امریکہ نے اب تک جس قدر مسلمانوں کو قتل کیا ہے یا اُنہیں نقصان پہنچایا ہے تقریباً اسی قدر اپنے ہم مذہب عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو بھی ہلاک کیاہے۔ اُن میں آپ ان لاکھوں بدھ ویتنامیوں، جاپانیوں، کوریائی اور کمبوڈیائی باشندوں کو بھی شامل کیجیے جن کا قتل عام امریکہ نے کیا تھا۔ ہمیں یوگوسلاویہ کی ان ہزاروں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے المناک قتل عام کو بھی یاد کرنا چاہیے جنہیں امریکی فضائی افواج نے اپنے B52 طیاروں سے کلسٹر بم گراکر ہلاک کردیا تھا، یہ سبھی عیسائی مذہب کےپیروکار تھے۔ ابھی کچھ سال پہلے کی ہی تو بات ہے جب لاطینی امریکی ملک ہیٹی میں ایک پادری جین پال ارسٹائیڈ کی حکومت تھی، انہیں وہاں کی عوام نے صدر منتخب کیا تھا لیکن امریکہ نے اس پادری صدر کا تختہ اُلٹ کر اسےراتوں رات ملک بدر کروا دیا اور عالمی میڈیا اس امریکی ظلم پر چُپ سادھے بیٹھا رہا۔ اس پادری صدر کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے ملک کی عیسائی عوام کے مفاد میں وہاں کی صنعتوں کو نیشنلائیزیشن کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہیٹی کے قریب ہی ایک دوسرا ملک وینزیویلا ہے، یہاں بھی عوام کی اکثریت عیسائی ہے۔ وینزیویلا کا صدر بھی مذہباً عیسائی ہے، جسے وہاں کے عوام نے باقاعدہ ووٹ دیکر جمہوری طریقے سے صدر منتخب کیا تھا مگر جب اس نے بھی اپنے ملک میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل آئل کمپنیوں کو نیشنلائز کرنا اور تیل سے حاصل شدہ دولت کو اپنے عوام پر خرچ کرنا شروع کیا، تو گویا امریکہ بوکھلا اُٹھا، پھر اس نے اپنے ایجنٹوں اور سی آئی اے کے ذریعے 2002ء میں صدر ہیوگوشاویز کا تختہ اُلٹ دیا لیکن وینزیویلا کی عوام نے چوبیس گھنٹے کے اندر ہی امریکی چال کو ناکام بنا دیا تھا، یوں وہ امریکی ایجنٹ جوصدر ہیوگوشاویز کو اغوا کرکے لے جارہے تھے، اُنہیں اُن کے منصب پر واپس بٹھانا پڑا تھا۔
ہیٹی میں امریکی دخل اندازی کوئی نئی بات نہیں ہے 1950ء میں امریکہ نے سی آئی اے کے ذریعے وہاں تختہ پلٹ کر اپنے پٹھوّ فریکوس ڈویلئر نامی ڈکٹیٹر کو منصب اقتدار پر بٹھا دیا۔ عوام نے جب اس کی مخالفت کی تو فریکوس نے سی آئی اے کی مدد سے اپنے اکیس سالہ دورِاقتدار میں ہیٹی کے ڈھائی لاکھ باشندوں کو قتل کر وادیا، یاد رہے یہ سب ہی عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے۔ جن کی موت پر امریکہ نے کوئی ردّعمل ظاہر نہیں کیاتھا۔
السلواڈور میں امریکی حمایت سے گدّی نشین ڈکٹیٹر نے وہاں کی عوام کا جینا محال کر دیا تب وہاں کے عیسائی آرک بشپ آسکر رومیرو نے امریکی صدر جمی کارٹر سے اپیل کی کہ وہ ظالم فوجی حکومت کی مدد بند کرے جو اپنے عوام کا قتل عام کر رہی ہے ،لیکن آرک بشپ آسکر رومیرو ہی قتل کردیے گئے، کہا جاتا ہے کہ ان کے قتل میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔ السلواڈور میں 1982ء سے 1992ء کی درمیانی مدت میں 63 ہزار عیسائی شہریوں کوقتل کیا گیا ۔
اسی طرح ایک اور مثال ارجنٹینا کی ہے،جہاں امریکی نواز جنرل جارج وڈیلا نے اپنے دورِاقتدار1976ء سے1986ء کے درمیان دس ہزار سے زیادہ قیدیوں کو جہاز میں بھر کر انہیں نشے کا انجیکشن لگوایا اور بیچ سمندر میں جاکر پھینکوا دیا۔ یوں امریکی سامراجیوں نے دس ہزار سے بھی زیادہ انقلاب پسند عورتوں اور مردوں سے چھٹکارا پا لیا اور یہ سبھی عیسائی تھے۔
قارئین کرام! یہ فہرست تو نہایت طویل ہے..... ارجنٹائن، گوئٹے مالا، چلی، نکاراگوا، ہونڈوراس، برازیل، پانامہ، بولیویا اور اسی طرح کے بہت سے ممالک ہیں جہاں کے باشندے عیسائی ہیں یا دیگر کسی مذہب کے پیروکار ہیں لیکن گذشتہ عشرے سے خود کو عیسائی مذہب کا علمبردار ظاہر کرنے والے امریکہ نے ہی ان ممالک کے لاکھوں شہریوں کو اپنے اقتصادی مفاد کی تکمیل کے لیے اس قدر بےرحمانہ طریقے سے قتل کروایا تھا کہ سن کر ہی روح کانپ جائے۔
مسلمانوں کی اکثریت نہایت جذباتی انداز میں سوچتی ہے اور رائے قائم کرتی ہے، جبکہ سرمایہ دارانہ نظام اور امپیریل ازم کے کرتا دھرتا مذہب، قوم یا جذبات کو پیشِ نظر رکھ کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔
آج دنیا بھر کے انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص اس حقیقت کو قبول کرلینا چاہیے۔ آپ خود غور کیجیے، بیشتر متمول مسلم ممالک کے قدرتی وسائل پر سرمایہ دارانہ نظام کی پروردہ بین الاقوامی کمپنیز کی اجارہ داری ہے، ان ممالک کے حکمران ان کمپنیز کی لوٹ مار کو نہیں روکتےتو کیا وہ استعمار کے دوست نہیں ہیں؟ جبکہ عیسائی مذہب کے پیروکار فیڈل کاسٹرو، ہیوگو شاویز یا ہیٹی کے پادری جین پال ارسٹائیڈ سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرتے رہے اور اُس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتے رہے تو انہیں مٹانے کے لیے اسی سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی پوری طاقت صرف کردی تھی۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ غریب و پسماندہ ممالک کو جب ترقی یافتہ مغربی ممالک امداد دیتے ہیں تو ان کا مقصد ان غریب ممالک پر اپنا شکنجہ سخت کرنا ہوتا ہے۔ خاص کر امریکہ جن ممالک کو مالی امداد مہیا کرتا ہے تو اس کا مقصد دنیا پر اپنا رعب اور دبدبہ قائم رکھنا ہے، تاکہ دنیا اس کے قابو میں رہے۔
آج کسی ملک کو فتح کرنے کے دو ہی راستے ہیں، ایک اس ملک پر فوج کے ذریعے قبضہ کرنا اور دوسرا اُس ملک کے مالی نظام کو قابو میں رکھنا۔ مالی طور پر قابو میں رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے موجود ہیں جو سامراجی ملکوں کی کے لیے طویل المعیاد منصوبے تیار کرتے اور انہیں پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ ادارے تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کو عجیب و غریب مشوروں سے نوازتے ہیں، جس کی ایک روشن مثال پاکستان ہے جہاں عالمی مالیاتی اداروں کے مشوروں اور نااہل لوگوں کے مسلط ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں عوام کی اہم ترین ضرورت ”بجلی“ کا بحران جاری ہے۔ پانی پہلے ہی سے کم تھا کہ بجلی کے بحران نے ملکی صنعت کا پہیہ جام کردیا، گھریلو صنعتوں کا کام بھی بند ہو گیا، بےروزگاری بڑھنے لگی تو نوجوان جرائم کی راہ پر چل نکلے۔ ملک بھر میں امن و امان کی حالت بدسے بدتر ہوتی چلی گئی۔ دن دہاڑے ڈاکے اور لوٹ مار سے عوام کا جینا دو بھر ہو کر رہ گیا۔ نا اہل حکمرانوں سے ملکی حالات کنٹرول نہ ہو سکے اور وہ بجائے کسی بہتر منصوبہ بندی کے بیرونی طاقتوں سے قرضوں پر قرضے لیتے چلے گئے اور پوری قوم قرضوں کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔
اگر غور کیا جائے تو تقریباً آدھی سے زیادہ دنیا اس وقت عالمی استعمار کی ایسی ہی چالوں کا شکار ہے۔ ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے حالات ان چالوں اور منصوبہ بندیوں کی گواہی دے رہے ہیں۔
حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے اس وقت دنیا بھر میں تیسری عالمی جنگ جاری ہے، یہ ایک خاموش لیکن نہایت ہی وحشیانہ جنگ ہے اور یہ جنگ تیسری دنیا کےممالک کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ اس جنگ میں فوجیوں کی بجائے بھوک و پیاس میں مبتلا معصوم بچے مر رہے ہیں اور لوگ بےروزگاری کی وجہ سے بھوک و بیماری سے کراہ رہے ہیں۔ اس جنگ میں پورے کا پورا مالی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ یہ تیسری دنیا کے ممالک کے خلاف سامراجی قوتوں کی شروع کی گئی جنگ ہے اور یہ جنگ غیر ملکی قرضوں کی معرفت چل رہی ہے۔
سامراجی ممالک ایک طرف توغریب ممالک کو قرضے اور امداد دے کر اپنا غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معرفت اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس جنگ میں فتح کس کی ہوگی؟
اس حوالے سے کیے گئے تجزیے غیر یقینی ہیں اور کسی حتمی صورتحال کو واضح نہیں کرتے، اس لیے کہ دنیا جس تیزی سے تبدیل ہورہی ہے کوئی یہ اندازہ نہیں لگاسکتا کہ دس پندرہ سال بعد مختلف خطوں کی انفرادی اور دنیا کی اجتماعی شکل اور کیفیت کیا ہوگی۔ ان ممالک کو مختلف جہتوں سے کئی خطرات لاحق ہیں۔ کئی خطوں کا معاشی اور سیاسی وجود خطرے میں ہے۔ بین الاقوامی سیاست و معیشت کے ماہرین اندازے قائم کررہے ہیں کہ آنے والے زمانوں میں کن مشکلات سے ہمیں نمٹنا پڑے گا۔ سیاسی اور عسکری حقائق کی روشنی میں مالیاتی، معاشی اور جغرافیائی تبدیلیوں کے حوالے سے اندازے قائم کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ماہرین یہ سوچ رہے ہیں کہ انسانیت کی بقا کا راستہ کیسے نکالا جائے؟
پال اے لاڈیسینا نے 2015ء کی دنیا کے کئی منظرنامے اپنی کتاب ”ورلڈ آؤٹ آف بیلینس“ میں پیش کیے ہیں۔
پال کا کہنا ہے کہ 2015ء میں مغربی دنیا کے لیے سیکیورٹی سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ اسی مسئلےکو موثر طور پر حل کرنے کی کوششیں بیشتر بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈال چکی ہیں جو آگے چل کر اُن کی معاشرت اور معیشت پر نہایت گہرے اثرات مرتب کریں گی، اندیشہ ہے ان اثرات کے سبب عالمی منظر نامہ ہی یکسر تبدیل ہوسکتا ہے۔
(جاری ہے)
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں