• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:22pm Maghrib 4:59pm
  • ISB: Asr 3:22pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:22pm Maghrib 4:59pm
  • ISB: Asr 3:22pm Maghrib 5:00pm

اداریہ: قیادت کی تبدیلی کا مطلب نئی مسلم لیگ بھی ہوسکتا ہے

شائع October 21, 2017

پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو مسلم لیگ ن کا صدر بنانے کی مہم میں کافی تیزی آچکی ہے۔

جمعرات کے روز، وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ، جو کہ بے باکی کے ساتھ 'سچ' بولنے کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں، نے واضح کیا کہ آخر کیوں سابق وزیر اعظم کی جگہ شہباز شریف کو مسلم لیگ ن کی قیادت سونپنا ضروری ہو گیا ہے۔

جلد ہی، پیرزادہ صاحب کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے حکومت پنجاب کے ترجمان نے اپنے تبصرے میں بتایا کہ اس وقت پارٹی کے لیے کس طرح حقیقت پسندی کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ دیگر لفظوں میں کہیں تو وزیر اعلیٰ کے بظاہر ایک قریبی ساتھی کی جانب سے بیان کی حمایت کی گئی تھی۔

صرف یہی نہیں بلکہ لاہور میں صوبے کے مختلف حصوں کے 40 لیگی اراکینِ صوبائی اسمبلی کی ملاقات کی بھی خبریں ہیں۔ اس ملاقات سے بھی وہی پیغام مل رہا ہے جو کہ پہلے ہی کچھ حد تک کھلے انداز میں مل چکا تھا، کہ نواز شریف کی جگہ ان کے چھوٹے بھائی کو پارٹی قیادت سونپی جائے۔

یہ بات کوئی نئی نہیں، بلکہ اس قسم کے کئی بیانات پہلے بھی مسلم لیگ ن کے اندر موجود ایک حلقے کی دیے جاتے رہے ہیں، اُس حلقے کو شہباز کیمپ کے طور پر پکارا جا رہا ہے۔ ایسے بیانات دینے والوں میں حمزہ شہباز بھی شامل ہیں جو کہ شہباز شریف کے بڑے بیٹے ہیں اور اپنا الگ اثر و رسوخ رکھنے والے رکنِ قومی اسمبلی بھی ہیں۔ شریف خاندان کا یہ وارث خاموشی کے ساتھ مریم نواز کو اپنے والد کے ہمراہ بڑھ چڑھ کر سیاست کرتا دیکھنے کے بعد اعتدال پسندی کی راہ اختیار کرنے کے سرگرم ہے۔

عام خیال یہ ہے کہ ن لیگ میں زیادہ نپی تلی دراڑ پڑنے سے مسلم لیگ ن کی قیادت شہباز شریف کو منتقل ہو جائے گی۔ بلاشبہ، یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ ن لیگ کے اندر اس قسم کی تبدیلی کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے اور اگر اس منتقلی میں تاخیر ہوئی تو کچھ پارٹی ارکان کا دوسری پارٹی مخالف قوتوں کے ساتھ مل جانے کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

اس نظریے کے مطابق کسی جگہ جارحانہ مہم کی ضرورت پڑی تو سابق وزیرِ اعظم اور ان کی بیٹی کا کردار پس منظر میں ایک سا ہی ہونا چاہیے۔

پیرزادہ صاحب نے اس قانون کی تبدیلی پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس کی مدد سے نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نا اہل ہونے کے بعد ایک بار پھر ن لیگ کے سربراہ منتخب ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک شخص کے لیے خصوصی طور پر تیار کی جانے والی ترمیم، جس پر کافی تنقید بھی کی گئی تھی، کو پارلیمنٹ میں لانے سے قبل پارٹی کے اندر کسی قسم کی بحث نہیں کروائی گئی تھی۔

اب بھی پارٹی کے اندر مشاورت کا امکان نہیں ہے کیوں کہ مشاورت سے ن لیگ کے اندر موجود اختلافات منظر عام پر پر بھی آ سکتے ہیں۔ لیکن آخر سچی پاکستانی روایت کے مطابق بہرحال یہ فیصلہ تو خاندان کو ہی کرنا ہے کہ کون سا بھائی کس گھڑی ن لیگ کی قیادت سنبھالنے کے قابل ہے۔

مگر ایک بات تو صاف ہے کہ اگر شہباز شریف صدارت سنبھالتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پارٹی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ پارٹی قیادت کی سابق وزیر اعظم، جو کہ قابل فہم طور پر اپنی نااہلی پر ناراض ہیں، سے شہباز شریف کو منتقلی کا مطلب ہے پارٹی میں ایک اہم اور بنیادی تبدیلی۔

مگر ایسی منتقلی کا قرار پانا آسان نہیں ہوگا، ہو سکتا ہے کہ یہ ایک نئی پارٹی بننے کی وجہ بن جائے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 21 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 29 نومبر 2024
کارٹون : 28 نومبر 2024